سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا

70 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے تحریر کیا گیا، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلے کو اردوزبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دے دیا

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا، 70 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلے کو اردوزبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی ہے کہ اردو ترجمہ کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کریں۔
فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے، اسی سی پی کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، الیکشن میں بڑا سٹیک عوام کا ہوتا ہے، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، سیاسی جماعت کو انتخابی نشان نہ دینا سیاسی جماعت کے الیکشن لڑنے کے حق کو متاثر نہیں کرتا، آئین سیاسی جماعت کو الیکشن میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017ء سے متصادم ہے، رول 94 کے تحت مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے، انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو، رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو، رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عمل میں نمایاں غلطیوں کے باعث عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کا تفصیلی فیصلے میں کہنا ہے کہ عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے، واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، آئین میں دیئے گئے حقوق کو کم کرنے یا قدغن لگانے والے قوانین کا جائزہ تنگ نظری سے ہی لیا جا سکتا ہے، جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیئے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ نہیں، انتخابی نشان واپس لیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہو گئے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے، سپریم کورٹ بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن پیدا ہی نہ ہوتی، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہیں کیوں کہ پشاور ہائیکورٹ کے پاس آرٹیکل 199 میں وہ اختیار موجود نہیں جو سپریم کورٹ کے پاس مکمل انصاف کرنے کیلئے آرٹیکل 187 میں ہے، الیکشن کمیشن کے پاس آرٹیکل 218 (3) میں اختیار تھا کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوں، پشاور ہائیکورٹ اختیار نہ ہونے کے باعث پی ٹی آئی کی درخواست نہ ہوتے ہوئے صاف شفاف انتخابات پر مکمل انصاف کا وہ فیصلہ نہیں کر سکتی تھی جو سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن کر سکتے تھے، پشاور ہائیکورٹ جو کر سکتی تھی اور اس میں ناکام ہوئی وہ یہ ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو معاملہ دوبارہ فیصلہ کرنے کیلئے ریمانڈ بیک کر سکتی تھی۔
سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے تفصیلی فیصلے میں دو ججز جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کیا اور لکھا ہے کہ فاضل ججز نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس امین الدین خان کا اختلافی نوٹ پڑھ کر افسوس ہوا کہ دو معزز ججز نے کہا 12 جولائی کا اکثریتی فیصلہ آئین کے مطابق نہیں، دو ججز نے الیکشن کمیشن کو 8 اکثریتی ججز کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کی آبزرویشن دی، دو ججز نے جس انداز میں اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں، ساتھی ججز بارے اس طرح رائے دینا سپریم کورٹ کی ساکھ کو متاثر کرنے کے مترادف ہے، قانونی معاملات پر ہر جج اپنی رائے دینے کا حق رکھتا ہے، جس انداز میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے کو غلط کہا یہ نظام انصاف میں خلل ڈالنے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جزو ہے، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ بنانے کا اختیار دیتا ہے، بھاری دل سے بتاتے ہیں دو ساتھی ججز جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے ہمارے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا، ایک حد تک مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرنے پر چیف جسٹس اور باقی تین ججز بھی متفق تھے، بدقسمتی سے باقی نکات پر متعدد باہمی بات چیت کے باوجود اتفاق رائے نہیں ہو سکا، ہم اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ مکمل انصاف میں کیا حتمی ریلیف ہو۔