لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں پراسیکوشن کی ایک سال کی کارکردگی پر بڑا سوال کھڑا کردیا
لاہور ( نیوز ڈیسک ) لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کا 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دینے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ تفصیلات کے مطابق بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ریمانڈ کیس کا تحریری فیصلہ 5 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس طارق سلیم شیخ اورجسٹس انوارالحق پنوں پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ جسمانی ریمانڈ دیتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کی گئی، جسمانی ریمانڈ سے متعلق اعلی عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، جسمانی ریمانڈ کےدوران جوڈیشل مجسٹریٹ نے الزامات کا جائزہ لینا ہوتا ہے، اگر مقدمہ نہیں بنتا تو جج مقدمہ سے ڈسچارج کر سکتا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کا تحریری فیصلے میں کہنا ہے کہ آئین ہر شہری کو حقوق فراہم کرتا ہے، آئین کے تحت کسی کی ازادی پر غیر قانونی قدغن نہیں لگائی جا سکتی، ایک سال تک ان بارہ مقدمات میں درخواست گزار کو گرفتار نہیں کیا گیا، پراسیکیوٹر جنرل عدالت کو قانونی طور پر مطمئن نہیں کر سکے، پراسکیوٹر جنرل سرکاری افسر کے بیان کے علاوہ درخواست گزار کے خلاف کوئی مواد نہیں دکھا سکے، درخواست گزار کے اعانت کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے بظاہر کوئی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈ پر موجود نہیں۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ جسمانی ریمانڈ دیتے وقت ججز کو آئین کا آرٹیکل دس بھی دیکھنا چاہیے، ریمانڈ کے وقت ملزم کا حق ہے ملزم جج کے سامنے اپنا موقف پیش کر سکے، درخواست گزار کا دیا گیا جسمانی ریمانڈ سپریم کورٹ کی ریمانڈ سے متعلق جاری کردہ گائیڈ لائنز کے مطابق نہیں، اس لیے درخواست گزار کا بارہ مقدمات میں دیا گیا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی درخواستوں کو منظور کیا جاتا ہے، عدالت عالیہ عمران خان کا 9 مئی کے 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ اور اس حوالے سے جاری نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیتی ہے۔