کیس کی مرکزی اپیلوں پر اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے محفوظ فیصلہ سنا دیا
اسلام آباد: ( نیوز ڈیسک ) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں منظور کرلیں ، عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو کیس سے بری کرنے کا حکم دیدیا۔
عدت نکاح کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج افضل مجوکا نے محفوظ شدہ فیصلہ سنادیا، اپیلیں منظور ہونے پر ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا۔
جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیئے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی اگر کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار نہیں ہیں تو رہا کردیا جائے، عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے رہائی کے روبکار جاری کردیے ہیں۔
سول جج قدرت اللہ نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو 7، 7 سال قید اور 5،5 لاکھ روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا ۔
قبل ازیں خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ اور عمران خان کے وکیل عمران صابر، مرتضیٰ طوری، زاہد ڈار عدالت میں پیش ہوئے۔
خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف کے دلائل
ٹرائل کے دوران بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے وکلاء کی جانب سے گواہ لانے کا کہا گیا، وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ اگر گواہ لانا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ، عدالت کسی بھی وقت شواہد لے سکتی ہے۔
وکیل زاہد آصف نے دلائل دیے کہ کسی بھی پارٹی سے ان کے فقہ کے بارے میں نہیں پوچھا گیا، مفتی سعید نے بھی نہیں کہا کہ ملزمان حنفی فقہ سے ہیں، سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ ان کے کلائنٹ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے شادی کی ہے انہیں عدت کے بارے میں علم نہیں، ایک ملزم دوسرے ملزم پر ملبہ ڈالتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا یہ وہ بھی شریک جرم ہے، ایسی وفادار عورت جو اس وقت شوہر کے ساتھ کھڑی ہے ، خاوند کہتا ہے میرا تو کوئی قصور ہی نہیں ، بیوی ساری آسائشیں چھوڑ کر شوہر کے لیے جیل چلی جائے اور شوہر اسی پر ملبہ ڈال دے ، خاور مانیکا کے وکیل نے دوران دلائل علامہ اقبال کا شعر سنا دیا ۔
زبانی طلاق کے حوالے سے خاور مانیکا کے وکیل کا مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ
دورانِ دلائل زبانی طلاق دینے کے حوالے سے خاور مانیکا کے وکیل کی جانب سے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب زبانی طلاق کو مان رہے ہیں کہ اپریل میں طلاق ہوئی ، دستاویزات زبانی بات پر زیادہ فوقیت رکھتے ہیں ، بشریٰ بی بی نے کس جگہ کہا کہ اس نے عدت پوری کرلی تھی ، بشریٰ بی بی نے کسی بھی جگہ مفتی سعید کو نہیں کہا کہ میری عدت پوری ہوگئی ہے، دوسری طرف سے کہا گیا کہ خاتون کا بیان حتمی ہوگا ، بشریٰ بی بی نے مفتی سعید کوکہا کہ میری عدت پوری ہوگئی ہے۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ بشریٰ بی بی کے بیان کو آپ اس کے خلاف کیسے استعمال کرسکتے ہیں ، شرعی تقاضے پورے کرنے کا ذکر تو کیا گیا ہے اس بات پر میں بھی آپ سے اختلاف کروں گا کہ آپ جیسے سینئر وکیل سے ایسی بات کی امید نہیں تھی ، وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ اختلاف کرنا سب کا حق ہے اور آپ بھی اختلاف کرسکتے ہیں۔
وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ کدھر لکھا ہے کہ بشریٰ بی بی نے کہا کہ میں نے عدت میں شادی نہیں کی ، بار بار کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کا بیان حتمی ہوگا ، کدھر ہے وہ بیان جہاں لکھا ہوا کہ بشریٰ بی بی نے عدت کے دوران نکاح نہیں کیا ، جس پر عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ نے کہا کہ مانیکا 342 کے بیان میں سوال نمبر دو میں بشریٰ بی بی کا بیان موجود ہے۔
وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ اعتراض اٹھایا گیا کہ طلاق نامہ کی فوٹو کاپی عدالت پیش کی گئی ، قانون شہادت میں لکھا گیا کہ کاپی کی بھی کاپی قابل قبول ہوگی ، ٹمپرنگ کا الزام لگایا گیا ، اس کو چیک کرایا جا سکتا تھا۔
وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ 342 کے بیان میں بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ لندن پلان کا حصہ ہے ، بانی پی ٹی آئی نے 342 کے بیان میں لمبی تفصیل دے دی ، جج افضل مجوکا نے کہا کہ کیا اس کا سرٹیفیکیٹ موجودہے ؟ جب ملزم بولے گا تو جج سرٹیفکیٹ دے گا یہاں چارج کے نیچے سرٹیفکیٹ موجود نہیں ہے ، جج افضل مجوکا نے عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے بھی اس پر دلائل نہیں دیے؟ جج افضل مجوکا نے خاور مانیکا کے وکیل سے استفسار کیا کہ جو پوائنٹ اٹھایا گیا ہے اس پر آپ ریمانڈ بیک کرانا چاہتے ہیں آپ اس پر کھل کر کہہ رہے ہیں۔
عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ نے کہا کہ جی ہم دوبارہ گواہ پیش کردیں گے، ہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی تعمیل کروانا چاہتے ہیں۔
انصاف اسلام کے مطابق چاہیے ، وکیل خاور مانیکا
وکیل خاور مانیکا نے اپنے دلائل میں کہا کہ شوہر فوت ہو جائے تو بیوی کی عدت 4 ماہ ہوگی ، ایک بار تین طلاقیں دی ہوں تو ایک طلاق تصور ہوگی ، شکایت کنندہ نے جب حلف لے کر بیان دیا کہ کہ وہ رجوع کرنا چاہتے تھے تو ان کی ایک طلاق تصور ہوگی ، میں نے تو کسی جگہ نہیں کہا کہ میں فقہ حنفیہ یا شافعی کا ماننا والا ہوں ، میں نے تو مسلمان ہونے کے ناطے شکایت درج کرائی ہے ، انصاف اسلام کے مطابق چاہیے۔
خاور مانیکا نے عدت کے دورانیہ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا۔
وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ جب تک عدت کا دورانیہ پورا نہیں ہوتا وہ طلاق دینے والے شوہر کی بیوی ہی تصور ہوگی ، 2019 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا جس میں لکھا کہ عدت کا دورانیہ 90 دن تصور کیا جائے گا، خاتون عدت کے دوران دوسری شادی کرے گی تو وہ ایک وقت میں دو نکاح میں ہوگی، ان کی طرف سے 14 نومبر کی طلاق کو چیلنج نہیں کیا گیا۔
عدالت نے خاور مانیکا کے وکیل کو دس منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ جواب الجواب دلائل کیلئے سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ کو بھی دس منٹ دیں گے۔
وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ ٹرائل کے دوران گواہ عون چودھری پر عدت کے حوالے سے کوئی بھی جرح نہیں کی گئی، ٹرائل کے دوران مفتی سعید پر بھی عدت کے حوالے سے کوئی جرح نہیں کی گئی، سیکشن 496 کے ساتھ 494 بھی شامل کیا جائے ، خاور مانیکا کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ کے جواب الجواب دلائل جاری
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کردیا۔
سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیئرمین یونین کونسل کو نوٹس جاری نہ کرنا کوئی اور جرم ہوسکتا، فراڈ نہیں ہوسکتا ، طلاق کا نوٹس خاور مانیکا نے نہیں دیا تو 90 دن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، مسلم فیملی لا کے سیکشن 7 کو پڑھا ہے اس میں لکھا ہے کہ نوٹس لازمی شرط نہیں ہے ، ان کی بات مان بھی جائے تو بھی قانونی ڈیفیکٹ کہا جا سکتا ہے ، فراڈ شادی نہیں کہا جا سکتا۔
سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ایک طلاق ہوئی تو کیا مطلب ہوا کہ خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی ابھی تک نکاح میں ہیں ؟ کیونکہ نوٹس تو ابھی تک نہیں ہوا، سیکشن 7 کے مطابق آج بھی گاؤں میں طلاق نوٹس کے ذریعے نہیں دی جاتی۔
سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ سیکشن 494 کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں ہے وہ کیسے مانگ رہے ہیں ، 496 بی ڈالا گیا مگر وہ چارج فریم میں نکال دیا گیا ، اللہ داد والے کیس میں بھی سپریم کورٹ نے سیکشن 7 بارے واضح کیا کہ چار سال بعد دوبارہ سابق شوہر کی بیوی تصور نہیں کیا جا سکتا ، خاور مانیکا نے نے اپنے بیان میں بشریٰ بی بی کے لیے سابقہ اہلیہ کہا ہوا ہے۔
خاور مانیکا کیجانب سے دائر میڈیکل بورڈ اور علماء کی رائے کے حوالے درخواستوں پر دلائل مکمل ہوچکے ہیں، جج افضل مجوکا نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا۔
گزشتہ سماعتوں کا احوال
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت ملتوی کردی تھی۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت کیس میں مرکزی اپیلوں کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کے حکم پر نظرثانی درخواست خارج کردی تھی۔
8 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت کے دوران جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم اہمیت رکھتا ہے، میں اس کی خلاف ورزی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
واضح رہے کہ 3 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت میں جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے تھے کہ 12 جولائی تک ہر حال میں فیصلہ سنانا ہے۔
عدت نکاح کیس میں عمران خان و بشریٰ بی بی کو سزا
3 فروری کو سول عدالت نے سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عدت نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔
31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کے لیے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
قبل ازیں 18 جنوری کو دوران عدت نکاح کیس کے خلاف عمران خان کی درخواست پر کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی تاہم یہ واضح رہے کہ 16 جنوری کو عدت نکاح کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی جاچکی تھی۔
15 جنوری کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بھی غیر شرعی نکاح کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، بشریٰ بی بی کی درخواست پر 17 جنوری کو کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
عدت نکاح کیس کے اندراج کا پسِ منظر
گزشتہ برس 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔
درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
درخواست مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔
11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔