اپریل 2022 سے ملک میں فی یونٹ بجلی کی اوسط قیمت میں 18 روپے اضافہ کیا گیا‘ 2023 میں آئی پی پیز کی 34 اعشاریہ 68 بجلی استعمال میں آئی جبکہ 65 فیصد سے بھی زیادہ استعمال نہ کی جانے والی بجلی کی قیمت بلوں کے ذریعے صارفین سے وصول کی گئی.نیپرا کی رپورٹ میں اعتراف
اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) پاکستان میں بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے بلوں میں 70فیصد تک کپیسٹی چارجزاور خسارے کی مد میں وصول کیئے جارہے ہیں ‘پاور پروڈیوسراور تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے اپنے سسٹم اپ گریڈ نہ کرنے کی وجہ سے بجلی کی پیدواری لاگت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں پڑوسی ملک بھارت میں بجلی کی فی یونٹ قمیت ساڑھے چھ روپے کے مقابلے میں کم سے کم اوسط بنیادی ٹیرف28روپے33پیسے جبکہ زیادہ سے زیادہ76روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے.
امریکی نشریاتی ادارے”وائس آف امریکا“نے پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بجلی بلوں میں صارفین کی استعمال شدہ بجلی کی قیمت صرف30فیصد ہوتی ہے جبکہ باقی70فیصد میں پاورپروڈیوسرکو اداکیئے جانے والے کپیسٹی چارجز اور اس شعبہ سے متعلقہ کمپنیوں کے اپنے نظام کو اپ گریڈ نہ کرنے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات ہیں.
نیپرا کی اپنی رپورٹ کے مطابق سال 2023میں میں آئی پی پیزکو اضافی ادائیگیوں کے لیے صارفین سے 65فیصد بجلی کی ایسی پیدوار کے پیسے بلوں کے ذریعے وصول کیئے گئے جو انہوں نے استعمال ہی نہیں کی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ریلیف عارضی نوعیت کا ہے اور ملک میں بجلی کا بیس ٹیرف بڑھنے سے ہر طبقہ بالخصوص کم آمدنی والے طبقات زیادہ متاثر ہوں گے.
وفاقی حکومت نے حال ہی میں بجلی کے نرخوں میںرد و بدل کیا ہے جس کے باعث پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے موجوہ حکومت نے پانچ جولائی کو ایک سال میں چوتھی بار بجلی کے نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2022 سے ملک میں فی یونٹ بجلی کی اوسط قیمت میں 18 روپے اضافہ ہوچکا ہے بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے ساتھ ملک میں بجلی کا اوسط ٹیرف 29 روپے 33 پیسے جب کہ زیادہ سے زیادہ ٹیرف 76 روپے فی یونٹ تک پہنچ گیا ہے جبکہ پڑوسی ملک بھارت میں بجلی کا فی یونٹ تقریباً ساڑھے چھ روپے ہے.
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو ماہرین عام آدمی کے لیے ناقابل برداشت قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض پروگرام لینے کے لیے بجلی کے شعبے کے نقصانات کو آمدن بڑھانے کے لیے صارفین پر منتقل کررہی ہے تاہم اس کے باوجود ملک میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتا جارہا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، روپے کی گرتی قدر، کیپٹل پیمنٹس، گردشی قرضے یعنی سرکلر ڈیٹ، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں ہونے والے نقصانات، بجلی چوری، بلوں کی ریکوریز کم ہونا، بجلی کی کھپت میں موسم کے لحاظ سے فرق اور دیگر مسائل شامل ہیں.
توانائی کے شعبے کے ماہرین اور خود نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی اپنی سالانہ رپورٹ اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ بجلی کے شعبے میں مسائل کی اصل جڑ پاور سیکٹر میں خراب طرزِ حکمرانی ہے ماہر توانائی فرحان علی خان کہتے ہیں پاکستان میں 60 فی صد بجلی ایندھن سے تیار ہوتی ہے اگر عالمی مارکیٹ میں خام تیل، گیس اور کوئلے کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ملک میں بجلی کی قیمتیں خود بخود مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں فرحان خان کا کہنا ہے کہ پاکستان توانائی کے حصول کے لیے پیٹرولیم اور ایل این جی درآمد کرتا ہے جس پر سالانہ 25 سے 27 ارب ڈالر کے اخراجات آتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ہائیڈرو پاور یعنی پن بجلی سے تیار ہونے والی بجلی لگ بھگ 26 فی صد ہے اس کے علاوہ نو فی صد کے قریب بجلی ایٹمی بجلی گھروں اور پانچ فی صد کے قریب بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے.
ماہر معاشیات عبدالستار خان کہتے ہیں کہ بجلی کی قیمتوں میں صرف ایندھن کی قیمت ہی شامل نہیں ہوتی بلکہ اس کے ٹیرف میں کیپیسٹی پیمنٹس کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے”وائس آف امریکہ “سے بات کرتے ہوئے ستار خان نے بتایا کہ کیپیسٹی پیمنٹس سے مراد وہ ادائیگیاں ہیں جو ہر حال میں نجی پاور پروڈیوسرزکو کرنی ہیں چاہے ان کی پیدا کردہ بجلی استعمال ہو یا نہ ہو انہوں نے کہا کہ غیر استعمال شدہ بجلی کے پیسے بھی حکومت صارفین سے وصول کرتی ہے بجلی کے بلوں میں اوسط کیپیسٹی چارجز کا حصہ لگ بھگ 70 فی صد ہے نیپرا رپورٹ کے مطابق 2023 میں تھرمل بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی استعمال شدہ بجلی کا تناسب محض 34 اعشاریہ 68 فی صد ہی رہا تھا یعنی 65 فی صد سے زائد تھرمل بجلی جو صارفین نے استعمال تو نہیں کی مگر اس کا بل ضرور ادا کیا.
ماہرین کا کہنا ہے کہ کیپیسٹی پیمنٹس کا اثر تب ہی ختم کیا جاسکتا ہے جب ملک میں بجلی کا استعمال بڑھایا جائے لیکن ملک میں خراب معاشی صورتِ حال کے باعث بجلی کی کھپت میں اضافے کے بجائے کمی دیکھی گئی ہے سال 2022 کے مقابلے میں 2023 میں بجلی کی خریداری میں9 اعشاریہ 41 فی صد کی بڑی کمی دیکھنے میں آئی تھی پاکستان میں بجلی کی سپلائی کے لائن لاسز خطے میں اس وقت سب سے زیادہ بتائے جاتے ہیں جب کہ ماہرین کے مطابق بجلی کی ترسیل کے نظام میں خرابیوں کے باعث سسٹم اپنی استعداد سے کم استعمال ہوتا ہے اور یوں اس کی انڈر یوٹیلائزیشن سے بھی بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے.
نیپرا کی لائسنس یافتہ پاور جنریشن کمپنیوں کی کارکردگی وقت کے ساتھ گرتی چلی گئی ہے جامشورو پاور کمپنی سے پیدا شدہ بجلی کی فی یونٹ قیمت 54 روپے 62 پیسے سے بھی بلند ہوچکی ہے اسی طرح مظفر گڑھ میں واقع جنریشن پلانٹس سے حاصل کردہ بجلی کا فی یونٹ نرخ 2023 میں 50 روپے سے تجاوز کر چکا تھا تاہم اس کی قیمت صارفین کو چکانا پڑرہی ہے وزارت توانائی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے دو ہزار 800 ارب تک جا پہنچے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں گردشی قرضوں سے بجلی کے بلوں پر پڑنے والا بوجھ 70 فی صد تک چلا گیا ہے جب کہ صرف 30 فی صد بجلی پیدا کرنے کی لاگت آتی ہے.
ماہرین کا کہنا ہے کہ دو سال قبل حکومت نے ملک کی تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں نئے بورڈ ممبران کا تقرر کیا تھا لیکن حکومت نے ان کا احتساب کیے بغیر ان کی جگہ نئے ممبران تعینات کر دیے ہیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ حکومت‘بجلی پیداکرنے والے والے کارخانوں اور تقسیم کار کمپنیوں کی نااہلی کو مزید کتنا عرصہ صارفین سے اضافی وصولیاں کرکے چھپایا جائے گی ملک میں بڑی تعداد تنخواہ دار طبقے کی ہے جس پر چند سالوں میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور ان کے اثرات سے اتنا زیادہ معاشی بوجھ آگیا ہے کہ اب اس میں مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی ایسی صورتحال میں ملک میں عدم استحکام اور امن وامان کے مسائل مزیدبڑھیں گے .
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو دیکھانا چاہیے کہ پچھلے چند ماہ میں جرائم کی شرح میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟جب ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام نہیں ہوگا اور امن وامان کی صورتحال مخدوش ہوتی جائے گی تو بیرونی سرمایہ کار تو دور کی بات پاکستان کے اپنے سرمایہ کار ملک سے بھاگ جائیں گے اور کوئی دوسال سے اس رحجان میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے وہ تشویشناک ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے اگلامرحلہ شہریوں کی جانب سے اعلانیہ طور پر ادائیگی سے انکار ہونے کے بہت زیادہ امکانات پیدا ہورہے ہیں کیونکہ عام شہریوں کی آمدن اور مہنگائی کی وجہ سے اخراجات کا تناسب بڑھ گیا ہے اگرحکومت اپنے خسارے دیکھ رہی ہے تو شہری تقریبا دیوالیہ ہوچکے ہیں ایسے حالات میں پائیدارریلیف کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے.