عدت کیس میں خاور مانیکا نے نئی درخواست دائر کر دی

عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر سیشن کورٹ کو جلد فیصلہ کرنے سے روکا جائے، اپیلوں پر فیصلے کیلئے متعین وقت کی پابندی کے احکامات واپس لیے جائیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے استدعا

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت میں نکاح کے کیس میں خاور مانیکا نے نئی درخواست دائر کر دی۔ تفصیلات کے مطابق خاورمانیکا نے عدت نکاح کیس میں سابق وزیراعظم اور بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف اپیلو ں پر فیصلےکے لیے ایک ماہ کی پابندی ختم کرانے کے لیےعدالت سے رجوع کیا ہے، اس مقصد کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ بظاہر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ماہ میں فیصلہ دینے کے احکامات سے سیشن عدالت دباؤ میں لگ رہی ہے، انصاف کا تقاضا ہے فریقین کو مکمل اور تسلی کے ساتھ سن کر فیصلہ کیا جائے اس کےلیے 1 ماہ کا وقت بہت کم ہے، اس لیے اپیلوں پر فیصلے کیلئے متعین وقت کی پابندی کے احکامات واپس لیے جائیں۔
بتایا جارہا ہے کہ دوران عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اہم ہدایت جاری کی ہوئی ہیں، جن میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن جج افضل مجوکہ کو عدت نکاح کیس میں مرکزی اپیلوں پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا ہے، اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی تھی جہاں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ ’سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے سزا کیخلاف اپیلوں پر فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی تھی، 29 مئی کو سیشن جج نے فیصلہ سنانے کے بجائے چیف جسٹس کو رپورٹ بھجوائی، حالاں کہ دلائل مکمل ہونے کے بعد صرف فیصلہ آنا باقی تھا، 23 مئی کو سیشن جج نے کہا کہ 29 مئی کو فیصلہ سنائیں گے لیکن 29 مئی کو کمپلیننٹ نے عدالت میں آ کر شور مچایا اور عدالت پر عدم اعتماد کیا‘، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ’کیا دلائل 23 کو مکمل ہو چکے تھے؟‘، وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ ’دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا‘، عدالت نے دریافت کیا کہ ’کیا 29 مئی کو شکایت کنندہ نے تحریری طور پر جج پر عدم اعتماد کا اظہار کیا؟‘، وکیل نے بتایا کہ ’29 مئی کو تحریری درخواست نہیں دی لیکن اس سے پہلے عدم اعتماد کی درخواست دی جو مسترد ہو گئی تھی، جج شارخ ارجمند نے خاور مانیکا کی پہلی کیس منتقلی کی درخواست مسترد کی‘۔
عدالت نے پوچھا کہ ’کیا سیشن عدالت کا وہ آرڈر چیلنج کیا گیا تھا؟‘، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’نہیں وہ آرڈر چیلنج نہیں کیا گیا‘، جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ’آپ کہتے ہیں سیشن جج کو واپس معاملہ بھجوائیں یا ہائی کورٹ خود سن لے؟‘، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’کیس سیشن جج سے اُس کے ماتحت ایڈیشنل سیشن جج کو نہیں بھیجا جا سکتا‘، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ ’چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے آرڈر میں کیا وجہ لکھی؟‘، سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ ’چیف جسٹس عامر فاروق کا آرڈر ایڈمنسٹریٹو آرڈر تھا اور ہمارے پاس اس کی کاپی نہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے ہمیں نوٹس کیے بغیر فیصلہ کر دیا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ ’ہائیکورٹ کا ایڈمنسٹریٹر آرڈر کسی جوڈیشل آرڈر کو ختم نہیں کر سکتا نہ ہی ریلیف سے روک سکتا ہے‘، جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ’ ایک جج نے خود کیس واپس بھیج دیا تو کیا اس کے پاس واپس کیس بھیجنا مناسب ہوگا؟ کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ ہم یہ کیس کسی اور جج کو Narration کے ساتھ بھیج دیں؟‘، عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ’جج شارخ ارجمند کیس کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے، کیا کوئی اور درخواست گزار ایسا کر سکتا ہے کہ جج پر الزام لگا کر کیس منتقل کروا لے؟‘۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارس دیئے کہ ’شارخ ارجمند بہترین جوڈیشل افسران میں سے ایک ہیں، عدت میں نکاح کیس کا ٹرائل کتنے عرصے میں مکمل ہوا؟‘، وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’تین دن میں‘، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا ’نہیں نہیں میں پوچھ رہا ہوں کہ ٹرائل کتنے عرصے میں مکمل ہوا؟‘، سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’میں ٹرائل کا ہی بتا رہا ہوں، بارہ بارہ گھنٹے ٹرائل چلا کر تین دن میں مکمل کیا گیا‘، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا ’کیس میں چارج کب فریم کیا گیا؟‘۔
عمران خان نے وکیل نے بتایا کہ ’16 جنوری 2024ء کو چارج فریم کیا گیا لیکن ٹرائل تین دن میں مکمل ہوا، جج کو تاریخ دی گئی تھی کہ اس تاریخ کو تم نے فیصلہ کرنا ہے، یہ کیس خود چُن کر ایک جج کو دیا گیا اور اس پر ہمارے بھی تحفظات ہیں، کل کو ہم بھی جا کر اس جج پر یہی اعتراضات کر دیں تو پھر کیا ہو گا؟ اگر ایک سیشن جج نااہل ہے اور پھر ایڈیشنل سیشن جج اہل ہو گیا؟‘۔