سوات: ( نیوز ڈیسک) سوات میں شہریوں نے اپنی ہی عدالت لگا لی، مبینہ توہین مذہب پر ایک شخص کو آگ لگا کر زندہ جلا دیا گیا۔ پولیس حکام کے مطابق مدین کے علاقے میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں علاقہ مکینوں نے شہری پر تشدد کیا اور اسے برہنہ کر کے سڑکوں پر گھسیٹا، پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کیا تو لوگوں نے تھانے کو بھی آگ لگا دی اور توڑ پھوڑ کی، مشتعل افراد ملزم کو تھانے سے نکال کر اسے جلا ڈالا۔
حکام کا کہنا ہے کہ تشدد اور جلائے جانے سے ملزم جان کی بازی ہار گیا جبکہ پولیس سٹیشن پر مشتعل مظاہرین کے حملے میں 8 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخو علی امین گنڈاپور نے ناخوشگوار واقعے پر اظہار افسوس کیا اور نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سے ٹیلیفونک رابطہ کر کے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی، انہوں نے ناخوشگوار واقعے پر شہریوں سے پرامن رہنے کی بھی اپیل کی ہے۔
واقعے کے بعد کالام سمیت دیگر علاقوں کے ہوٹلز بند کر دیئے گئے، سیاحوں نے رات گاڑیوں میں بیٹھ کر گزاری۔
علمائے کرام کی مذمت
دوسری جانب علمائے کرام نے سوات واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ واقعہ بربریت ہے، عوامی رویوں میں تلخیاں کم کرنے کی ضرورت ہے، کسی کو حق نہیں کہ وہ خود ہی جلاد، یا خود ہی منصف بن جائے، ملزمان کو سزا ملنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کسی کے بیگناہ یا گناہگار ہونے کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، عوام کا اعتماد بحال کرنا ریاست اور عدالت کی ذمہ داری ہے۔
ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا کہ ایسے واقعات کا اسلام میں کوئی تصور نہیں، عوام کے ذہنوں سے ایسی سوچ کو نکالنا ضروری ہے، معاملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے، ذمہ داران کو گرفتار کر کے ان کیخلاف مقدمات درج ہونے چاہئیں۔
مذہبی سکالر حماد لکھوی نے بتایا کہ عوام میں بے حسی اور انتہا پسندی بڑھ رہی ہے، اس ماحول کو ختم کرنے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو کام کرنا ہوگا، سزا دینا عدالتوں کا کام ہے، قوانین موجود ہیں، کسی بھی شخص کو سزا دینا کسی گروہ کا کام نہیں۔
سابق وزیر مذہبی امور انیق احمد نے واقعے کو انتہائی قابل افسوس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی، کیا یہ باتیں صرف سننے کیلئے ہیں، عمل کرنے کیلئے نہیں۔