عدالت کا لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے درخواست 3 رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بجھواتے ہوئے الیکشن کمیشن سے دیگرہائیکورٹس سے ہونے والی خط وکتابت کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم ‘اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری
اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کے 9 امیدواروں کی فریق بننے کی درخواست منظور کرلی ہے عدالت نے لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے درخواست 3 رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بجھواتے ہوئے الیکشن کمیشن سے دیگرہائیکورٹس سے ہونے والی خط وکتابت کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیئے ہیں .
سپریم کورٹ میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کو بند کر دیں، آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے. چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس نعیم اخترافغان سماعت کررہے ہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے سکندر بشیر جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے سلمان اکرم راجہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے.
چیف جسٹس قاضی فیض عیسی نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی میں شامل 2 جج اس وقت کراچی،لاہوررجسٹری میں ہیں لہذاپریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس آئندہ ہفتے ہوگاسماعت کے آغازپر الیکشن کمیشن کے وکیل نے لاہورہائیکورٹ کے سنگل رکنی بینچ فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ لاہورہائیکورٹ کا فیصلہ معطل ہوگا تو ہم لاہورہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے بامعنی مشاورت کر سکیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب حکم امتناع جاری کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں ہم الیکشن کمیشن کوچیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کیلئے روک نہیں رہے ممکنہ طورپرپیر کے روز چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ بطور جج سپریم کورٹ حلف لے لیں گے.
سماعت کے آغازپر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ کیس میں آئین کے آرٹیکل 219(سی) کی تشریح کا معاملہ، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں کیس کی تھوڑے حقائق بتا دیجیے جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ 14 فروری کو الیکشن کمیشن نے ٹریبونلز کی تشکیل کے لیے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے، ٹربیونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، تمام ہائی کورٹس سے خطوط کے ذریعے ججوں کے ناموں کی فہرستیں مانگی گئیں، خطوط میں ججوں کے ناموں کے پینلز مانگے گئے، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججوں کے نام دیے گئے اور دونوں ججوں کو الیکشن ٹربیونلز کے لیے نوٹیفائی کردیا گیا.
انہوں نے کہا کہ 26 اپریل کو مزید دو ججوںکو بطور الیکشن ٹربیونلز تشکیل دیے گئے دوران سماعت ہائی کورٹ کے لیے قابل احترام کا لفظ کہنے پر چیف جسٹس نے وکیل کو روک دیا چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ کو قابل احترام کہہ رہے ہیں، یہ ججوں کے لیے کہا جاتا ہے،انہوں نے دریافت کیا کہ انگریزی زبان انگلستان کی ہے، کیا وہاں پارلیمان کو قابل احترام کہا جاتا ہے؟.
انہوں نے کہا کہ یہاں پارلیمنٹیرین ایک دوسرے کو احترام نہیں دیتے، ایک دوسرے سے گالم گلوچ ہوتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ احترام ہو، الیکشن کمیشن کو قابل احترام کیوں نہیں کہتے؟ کیا الیکشن کمیشن قابل احترام نہیں؟بعد ازاں وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 4 ٹربیونلز کی تشکیل تک کوئی تنازع نہیں ہوا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے؟ کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازع بنانا لازم ہے؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازع تھا، رجسٹرار ہائی کورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جا رہے ہیں؟ چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر بیٹھ جاتے تو تنازع کا کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتے، کیا چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کا ملنا منع ہے؟.
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تمام ہائی کورٹس کو خطوط لکھے، تنازع نہیں ہوا لاہور ہائی کورٹ کے علاوہ کہیں تنازع نہیں ہوا، بلوچستان ہائی کورٹ میں تو ٹربیونلز کی کارروائی مکمل ہونے کو ہے جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ کوئی انا کا مسئلہ ہے؟بعد ازاں الیکشن کے انعقاد اور الیکشن ٹربیونل کے قیام کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ الیکشن کمیشن پر برہم ہوگئے.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ سمجھ نہیں آیا الیکشن کمیشن نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے بات کیوں نہیں کی؟ آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ کسی جج سے ملاقات نہیں کرسکتے، ملاقات کرنے میں انا کی کیا بات ہے؟ دونوں ہی آئینی ادارے ہیں، الیکشن کمیشن متنازع ہی کیوں ہوتا ہے؟ آپ لوگ الیکشن کروانے میں ناکام رہے چیف جسٹس نے قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کی جانب سے جاری کیے گئے صدارتی آرڈیننس پر سوالات اٹھا ئے .
انہوں نے کہا کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کو بند کر دیں ،آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے، آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹربیونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن سی نے بالکل واضح کر دیا ہے، ہم نے آئین و قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، عدالتی فیصلوں پر حلف نہیں لیا الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ میں نے قانون نہیں بنایا، جنرل بات سے زیادہ نہیں کرسکتا، آرڈیننس کا دفاع نہیں کررہا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیسز کی ذمہ داری میری ہے، چیف جسٹس نے کہا وکیل سے مکالمہ کیا کہ اپنی کمزوری کو وجہ نہ بنائیں.
سکندر بشیر نے بتایا کہ میں نے آخری بار سنا تھا تو لاہور ہائی کورٹ میں شاید 62 جج تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ کیا آرڈیننس کو چیلنج نہیں کیا؟سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرڈیننس کو لاہور، اسلام آباد ہائی کورٹس میں چیلنج کیا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ مختلف ہائی کورٹس کیوں؟ آرڈیننس تو پورے ملک میں نافذ ہو گا یاد رہے کہ 14 جون سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل تشکیل کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی تھی 14 جون کو ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کا الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا.