وفاقی حکومت کا 8ہزار500ارب روپے خسارے کا بجٹ‘ ٹیکسوں کا بڑا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر

فی کس آمدنی‘کرنسی کی قدر اور شرح نمو کے اعتبار سے ہم پہلے ہی دنیا کے بدترین ممالک میں شمارہیں‘وائٹ کالر ملازمت پیشہ اور چھوٹے کاروباری کو کرش کرنے کی کوششوں میں ملکی معیشت کرش ہوجائے گی‘جمود کا شکار معیشت پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے سے معاشی حالات مزید خراب ہونگے‘چھوٹے کاروباری اور ہنر مند افراد پر نوجھ بڑھے گا تو وہ کسی اور ملک جابسیں گے‘ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے بڑی ترجیح حکومتی اخراجات‘ غیر ترقیاتی اور غیر جنگی دفاعی اخراجات میں نمایاں کمی ہونی چاہئے تھی. معروف ماہرمعاشیات قیصربنگالی‘سمیع اللہ طارق‘پروفیسرڈاکٹرمنور اور دیگر ماہرین کا بجٹ پر ردعمل

اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) وفاقی حکومت نے 8ہزار500ارب روپے خسارے کا مالی سال 2024-25 کا بجٹ پیش کیا ہے جو وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق جی ڈی پی کا 6کا اعشارہ9 فیصد ہو ہے اتنے بڑے مالی خسارے کے باوجود حکومت نے 1400 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے رکھے ہیں تاہم اخراجات میں سب سے بڑا حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کا ہے جس کی مد میں 9775 ارب روپے ادا کیے جائیں گے.
یہ رقم دفاعی اخراجات سے تقریبا چار گنا زیادہ ہے دفاع کیلئے 2122 ارب روپے رکھے گئے ہیں وفاقی حکومت ایف بی آر کے ذریعے 12970 ارب روپے جمع کرے گی لیکن اس میں سے 7438 ارب روپے صوبوں کو دیئے جائیں گے.
حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود ٹیکسوں کا بڑا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالا گیا ہے جس سے حکومت تنخواہ ہر انکم ٹیکس وصول کرنے کے علاوہ یوٹیلٹی بلوں کے ذریعے بھی انکم ٹیکس وصول کرتی ہے نان ٹیکس محصولات کو ملا کر وفاقی حکومت کی آمدن 9119 ارب روپے ہوگی اس لیے خسارہ پورا کرنے کیلئے قرضوں، نجکاری اور بیرون ملک سے ملنے والی امداد پر انحصار کیا جائے گا وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر نئے مالی سال کے اہداف کے حصول میںمشکلات پیدا کر سکتی تھی جبکہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام سے عام شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا.

قومی اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر کے دوران وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور نئے پروگرام سے متعلق بہت غیر یقینی کی کیفیت تھی آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں تاخیر انتہائی مشکلات پیدا کر سکتی تھی جبکہ آئی ایم ایف کہہ چکا ہے کہ 6سے8ارب ڈالر تک ملکی تاریخ کے سب سے بڑے پروگرام کے لیے ابھی جائزہ اجلاس بھی نہیں ہوا ‘سٹاف لیول جائزہ اجلاسوں کے بعد آئی ایم ایف کا مشن پاکستان کا دورہ کرئے گا مگر حالات وواقعات کے پیش نظر ممکن نظر نہیں آرہا کہ عالمی مالیاتی ادارہ رواں سال نئے پروگرام کے لیے مذکرات مکمل کرپائے گا.
دوست ممالک ‘ورلڈ بنک‘ایشیائی ترقیاتی بنک سمیت قرض فراہم کرنے والے دیگر ادارے نئے قرضوں کو آئی ایم ایف کے پروگرام سے مشروط کرچکے ہیں‘جون میں ختم ہونے والے پروگرام سے قبل بھی دوست ممالک اور مالیاتی اداروں نے قرض یا کسی بھی قسم کی مدد کو آئی ایم ایف کے پروگرام سے مشروط کیا تھا پاکستان کو آئندہ مالی سال میں ملکی و غیر ملکی قرضوں پر 9775 ارب روپے سود کی ادائیگی کرنی پڑے گی.
وفاقی حکومت کے آئندہ مالی سال کی بجٹ دستاویز کے مطابق پاکستان کے 18000 ارب روپے سے زائد کے بجٹ میں میں سود کی ادائیگی 50 فیصد ہے وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال میں 12970 ارب روپے کا ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ نان ٹیکس ریونیو سے 4845 ارب روپے اکٹھے ہوں گے حکومت نے اگلے مالی سال میں مختلف ذرائع سے 7500 ارب روپے قرض لینے کا تخمینہ لگایا ہے حکومت نے اگلے مالی سال میں 1363 ارب روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز بجٹ میں دی ہے.
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں بتایا گیا کہ دفاعی اخراجات کے لیے 2112 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جبکہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 1400 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی ہے بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے کہا اگلے مالی سال میں ایف بی آر کے محصولات کی تخمینہ 12970 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال کے 38 فیصد زیادہ ہے وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 7438 ارب روپے ہو گا اگلے مالی سال میں معاشی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح 12 فیصد متوقع ہے.
وزیر خزانہ نے کہا سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 839 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جبکہ پینشن کے اخراجات کے لیے 1014 ارب مختص کرنے کی تجویز ہے انہوں نے کہا بجلی و گیس اور دیگر شعبوں میں سبسڈی کے لیے 1363 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس محصولات میں اضافے کے لیے کوئی جدید اقدامات متعارف نہیں کروائے گئے جس سے حکومت وسائل کو پاکستان کی معاشی ترقی کی جانب موڑ سکے گی‘زرعی آمدن پر ٹیکس کی بازگشت سنی جارہی تھی مگر وزیرخزانہ کی بجٹ تقریرمیں اس کا تذکرہ نہیں ملا بلکہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ تنخواہ داروں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں پر ڈال دیا گیا ہے.
بزنس ریکارڈر کے مطابق پاکستان کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے سربراہ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ ایسا لگتا تھا کہ حکومت آمدنی بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کرئے گی اور تنخواہ داروں اور عام شہریوں کو ٹیکسوں میں ریلیف ملے گا مگر50ہزار1سو روپے تنخواہ پر اڑھائی ہزار روپے ٹیکس ظالمانہ اقدام ہے . انہوں نے کہا کہ افراط زراور روپے کی قدرمیں کمی کی وجہ سے دوسالوں میں روپے کی قدر میں پہلے ہی 2022میں176روپے کے مقابلے میں280روپے تک جاچکا ہے یعنی ڈالر کی قدر میں دوسالوں کے دوران176روپے کا اضافہ ہوا جبکہ پچھلے دوسالوں میں بجلی ‘گیس ‘اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں کئی سو فیصد اضافہ ہوا پچاس ہزار روپے سال2022میں 284امریکی ڈالر کے برابر تھے جبکہ جون 2024 پچاس ہزار روپے کی قدر 178امریکی ڈالر کے برابر رہ گئی ہے ایسے میں ایک لاکھ سے نیچے تنخواہ کو ناقابل ٹیکس قراردیا جانا چاہیے .
پروفیسرڈاکٹر منور نے کہا کہ عام شہری پہلے ہی انٹرڈائریکٹ ٹیکسیشن کی مد میںہر چیزپر ایک ہی ٹیکس کئی کئی بار ادا کرتا ہے فی کس آمدنی‘کرنسی کی قدر اور شرح نمو کے اعتبار سے ہم پہلے ہی دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں 2022میں ہمارا جی ڈی پی4اعشاریہ7فیصد تھا جو 2024میں گر کر 2اعشاریہ8فیصد پر آگیا ہے تو اتنے بڑے فرق اور ”ڈی فلیشن“کی وجہ سے گروتھ کا رک جانا ظاہر کرتا ہے کہ ہماری معاشی حالت کیا ہے انہوں نے کہا کہ آپ انفولیشن پر قابو پالیتے ہیں تو گروتھ کو بڑھنا چاہیے لیکن اگر آپ کی گروتھ جمود کا شکار ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی معیشت”ڈی فلیشن“کا شکار ہے جس کی وجہ شہریوں میں قوت خرید کی کمی کی وجہ سے ڈیمانڈ کا ختم ہوجانا ہے ایسے میں آپ مہنگائی میں کمی کے جتنے مرضی ڈھول پیٹتے رہیں اس سے حقائق تبدیل نہیں ہونگے‘بجلی‘گیس‘پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے شہری اپنے ماہانہ راشن کے بلو ں میں کٹوتیوں پر مجبور ہیں .
انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں وائٹ کالر نوکری اور چھوٹے کاروباری مڈل کلاس قائم کرتے ہیں جو ملکی معیشت کے لیے بفرزون کا کام کرتی ہے مگر ہم نے مڈل کلاس کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اب ملک میں صرف دوطبقات ہی بچے ہیں امیر اور غریب‘مڈل کا تصور پاکستان میں ختم ہوچکا ہے انہو ں نے کہا کہ بجٹ دستاویزات اگر معاشیات کا ایک پروفیسرٹھیک طرح سے پڑھنے سے قاصر ہے تو ایک عام شہری کو اس کی سمجھ کیسے آئے گی؟ .
انہوں نے کہا کہ بجٹ کے مجوعی خسارے کو تلاش کرنا کسی ناممکن کو ممکن کرنے سے کم نہیں کیونکہ اعداوشمار کے ہیر پھیر سے اسے بجٹ کے ہزاروں صفحات پر مشتمل دستاویزات میں مختلف جگہوں پر تکنیکی ٹرمزکے ساتھ بیان کیا گیا ہوتا ہے تو سالوں سے کامرس کے شعبہ میں صحافت کرنے والے بھی چکرائے ہوتے ہیں بجٹ دستاویزات دیکھ کر اسی لیے ہر میڈیا ہاﺅس کی خبر وں میں یہ اعدادوشمار مختلف نظر آتے ہیں انہوں نے کہا کہ بجٹ تقریر کا دستاویزات سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ‘حکومتیں کسی بجٹ کو ”ٹیکس فری“قراردے رہی ہوتی ہیں تو بجٹ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ”ٹیکس فری“بجٹ کے باوجود مہنگائی میں اضافہ کیوں ہواہے کیونکہ ٹیکسوں کو ٹیکنیکل ٹرمزکے ساتھ مختلف مدات میں چھپایا ہوتا ہے اس ”جادوگری“کو بڑے بڑے ماہرین کئی بار پکڑنے میں ناکام رہتے ہیں تو عام شہری بیچار ا کیسے پکڑسکتا ہے انہوں نے کہا کہ بظاہرٹیکس کی بنیاد وسیع ہو رہی ہے، لیکن آخر کار یہ بوجھ صارفین کوہی منتقل ہو گا.
معروف ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی نے کہا کہ جمود کا شکار معیشت پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے سے معاشی حالات مزید خراب ہونگے انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے بڑی ترجیح حکومتی اخراجات‘ غیر ترقیاتی اور غیر جنگی دفاعی اخراجات ہونے چاہئے ان میں نمایاں کمی سے ملکی معیشت کا جمود ٹوٹ سکتا ہے انہوں نے کہا کہ اگر کسی چھوٹے کاروباری کے پاس ڈیڑھ ‘دوکروڑ روپے ہیں تو وہ یواے ای یا کسی دوسرے عرب ملک میں جاکر چھوٹا کاروبار شروع کرلے گا جیسا کہ دوسالوں سے ہورہا ہے‘اسی طرح پروفیشنل پاسپورٹ اور بیگ پکڑکر کسی اور ملک جا بسیں گے ملک پہلے ہی برین ڈرین کا شکار ہے بجٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت جس طرح کے حالات پیدا کرنے جارہی ہے اس سے ملک میں صرف وہی لوگ بچیں گے جن کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں اور نہ ہی وہ ہنر مند ہیں.
پاکستان سافٹ ویئر ہاﺅسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد زوہیب خان نے کہا کہ ادارے نے حکومت سے آئی ٹی سیکٹر کی افرادی قوت پر ٹیکس 35 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کا مطالبہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ اس سے ایف بی آر کے ٹیکس محصولات میں اضافے میں بھی مدد ملے گی انہوں نے کہا کہ آئی ٹی سیکٹر کی زیادہ تر کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو فری لانسرز کے طور پر لسٹ کیا ہے تاکہ غیر رجسٹرڈ فری لانسرز کے لیے 1 فیصد اور رجسٹرڈ فری لانسرز کے لیے 0.25 فیصد ٹیکس ادا کیا جائے‘ آئی ٹی کا شعبہ 100 فیصد ڈالر ریٹینشن اکاﺅنٹ اور ٹیکس چھوٹ کی بھی توقع کر رہا ہے کیونکہ یہ غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں دفاتر کھولنے کی طرف راغب کرنے کے لئے مارکیٹنگ ٹول کے طور پر کام کرے گا.
ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ سید احمد نے کہا کہ وہ آئی ٹی کے شعبے کے لئے 26 ارب روپے کی توقع کر رہے ہیں تاہم 16 ارب روپے ایک دہائی پرانے منصوبے ٹیک پارکس، اور 10 ارب روپے پی ایس ای بی اور این اے وی ٹی سی سی (دونوں سرکاری اداروں) کے حوالے سے ہنر مندی اور مارکیٹنگ کے لیے کوریا سے لیے گئے قرضے ہیں. آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود خان نے کہا کہ آٹو انڈسٹریجو پہلے ہی گزشتہ اڑھائی سالوں میں کمزور ہو چکی ہے کو مدد اور اسٹریٹجک سمت کی فوری ضرورت ہے جیسا کہ پچھلے وزیر خزانہ کی تقریر میں دیکھا گیا تھا کہ صنعت کی ترقی صرف 1.25 فیصد پر رک گئی ہے انہوں نے کہا کہ ہماری بنیادی توجہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور مقامی پیداوار اور لوکلائزیشن کو بڑھانے پر ہونی چاہیے اگر ہم ان اہم اقدامات کو اٹھانے میں ناکام رہتے ہیں، تو ہم کچھ مہینوں میں خود کو ایک بار پھر معاشی بحران میں مبتلا ہونے کا خطرہ مول لیں گے.
پروفیسرڈاکٹر منور نے کہا کہ نان فائلرزکے بیرون ملک جانے پر پابندی‘موبائل فون سم بلاک کرنااوربجلی کے کنکشن کاٹنے کی باتوں سے کون سا سرمایہ کار پاکستان آنے کا سوچے گا؟انہوں نے کہا کہ کرپشن‘ بغیرمقدمات یا جھوٹے مقدمات میں گرفتاریاں‘ سوشل میڈیا پر پابندیاں ‘آزادی اظہار رائے ‘شخصی آزدیاں اور سب سے بڑھ کر سیکورٹی ایشوز ایسے حالات میں آپ کے اپنے سرمایہ کار ملک چھوڑکرجارہے ہیں جبکہ حکمران اشرافیہ بیرونی سرمایہ کاری آنے کی جھوٹی تسلیاں دی رہی ہے قوم کو‘انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے معیشت کو بچانا ہے تو جھوٹ بولنا بند کرکے عوام کو سچ بتانا ہوگااس کے لیے چاہے جتنی بھی بڑی سیاسی قیمت کیوں نہ اداکرنی پڑے وقت آگیا ہے کہ اب سچ بولا جائے‘حکومتیں اپنے اور افسرشاہی کے شاہانہ اخراجات کو ختم کرئے ‘پروٹوکول کلچر‘محلات ‘گاڑیوں کے کانوائے اور جہازبھر بھر کر غیرملکی دورںپر پابندی عائدکی جائے کیونکہ ہمارے ہاں یہ عام پریکٹس ہے کہ کسی وزیریا سیکرٹری کی بیگم نے دوبئی یا لندن سے شاپنگ کرنی ہے تو زبردستی کا سرکاری دورہ بنالیا جاتا ہے انہو ں نے کہا کہ ہمیں اس پورے کلچرکو ختم کرنا ہوگا.