6 کنسورشیمز اور کمپنیاں بولی میں حصہ لینے کے لیے اہل ہوگئیں
کراچی ( نیوز ڈیسک ) قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے جہاں 6 کمپنیاں اور کنسورشیمز بولی میں حصہ لینے کیلئے اہل ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں 6 کمپنیوں یا کنسورشیمز نے پری کوالیفائی کیا ہے، جس کے بعد پری کوالیفائیڈ یہ کمپنیاں اور کنسورشیمز پی آئی اے کی بولی میں حصہ لینے کے اہل ہیں، اس اہم قانونی پیش رفت سے وزارت خزانہ اور نجکاری کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔
بتایا گیا ہے کہ وفاقی وزیرنجکاری عبدالعلیم خان کی زیر صدارت نجکاری کمیشن بورڈ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ پری کوالیفائی کرنے والوں کو پی آئی اے کی مزید تفصیلات فراہم کی جائیں گی، پی آئی اے کی اسکیم آف ارینجمنٹ سے اسٹاک مارکیٹ کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے، سکیم میں اثاثے، خسارے اورقرض ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کر دیئے گئے۔
عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ خسارے میں چلنے والے تمام اداروں کی شفاف اور تیز نجکاری یقینی بنائیں گے، کاروباری گروپس کی ساکھ کا خیال رکھتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کریں گے، نجکاری کے عمل کو میڈیا پر براہ راست دکھایا جائے گا تاکہ کسی کو کوئی اعتراض نہ رہے۔ علاوہ ازیں سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر نجکاری کاکہنا تھاکہ اگر ہم پی آئی اے کی نجکاری نہیں کرتے تو یہ اس طرح نہیں چل سکتی، پی آئی اے بند ہو گئی تو پھر ملازمین کا کیا بنے گا؟ گورنمنٹ کا کام بزنس کرنا نہیں بلکہ سہولیات دیناہوتا ہے، جب گورنمنٹ بزنس کرتی ہے تو اس کاانجام پھریہی ہوتا ہے جہاں ہم اب کھڑے ہیں، اس وقت پی آئی اے ہمارے لئے شرمندگی کا باعث بن چکا ہے، پی آئی اے کی نجکاری میں شفافیت رکھی جائے گی، پی آئی اے سے متعلق جتنے بھی سوالات ہیں میں جواب دینے کو تیار ہوں، میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ پی آئی اے کی نجکاری مکمل صاف وشفاف ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ا س وقت قومی ائیرلائن پی آئی اے کے 18 جہاز چل رہے ہیں، اب 18 جہازوں کے ساتھ اگر 10 ہزار ملازمین ہیں تو اس کاکیا کریں،ہم لوگوں کو ملازمین آج اس لیے زیادہ لگ رہے ہیں کہ آپ کے پاس چلانے کوجہاز ہی نہیں ہیں، ہم نے آج تک جتنی ایئرلائنز میں سفر کیا ہمیں بہترین کپتان اور ملازمین صرف پی آئی اے میں ہی ملتے ہیں، پی آئی اے میں تعداد سے زیادہ اضافی بھرتیاں کس نے کیں وہ دیکھیں، پی آئی اے میں نچلے طبقے کا کوئی قصور نہیں ہے اگر مینجمنٹ ٹھیک کام نہیں کر رہی تھی تو انہیں تبدیل کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟۔