عوام نے سنی اتحاد کونسل نہیں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا، جسٹس جمال مندوخیل

بلے کے انتخابی نشان والے فیصلے پر لوگوں کو مس گائیڈ کیا گیا، آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں بھی شامل ہو سکتے تھے کوئی پابندی نہیں تھی۔ مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے قرار دیا ہے کہ بلے کے انتخابی نشان والے فیصلے پر لوگوں کو مس گائیڈ کیا گیا، آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں بھی شامل ہو سکتے تھے کوئی پابندی نہیں تھی، مخصوص نشستوں کا معاملہ عوام کا ہے جنہوں نے سنی اتحاد کونسل نہیں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائر عیسی کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ بینچ کے سامنے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر اپیلوں کی سماعت جاری ہے، سپریم کورٹ میں اس وقت چیف جسٹس سمیت 14 ججز ہیں لیکن جسٹس مسرت ہلالی کی علالت کے باعث وہ میسر نہیں ، اس لیے تمام باقی ججوں پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دی گئی ہے، کیس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جا رہی ہے۔
مخصوص نشستوں سے متعلق فل کورٹ سماعت شروع ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیس میں فریق مخالف کون ہیں؟ بینیفشری کون تھے جنہیں فریق بنایا گیا؟‘، وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’جن کو اضافی نشستیں دی گئیں وہ بینفشری ہیں‘، اس پر قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ’دیکھنا ہے کیا فائدہ لینے والی سیاسی جماعتوں سے کوئی آپ کو سپورٹ کر رہا ہے‘، اس کے جواب میں وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’مال غنیمت لینے والے کیسے سپورٹ کریں گے؟‘، اس موقع پر عدالت نے مخصوص نشستیں لینے والی سیاسی جماعتوں سے ان کا مؤقف دریافت کیا تو عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے کوئی بھی پیش نہ ہوا جب کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف نے اضافی نشستیں رکھنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کی حمایت کی۔
اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ ’الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا تھا، پشاور ہائی کورٹ نے دس جنوی کو الیکشن کمشین کا حکم نامہ کالعدم قرار دیدیا تھا، الیکشن کمیشن کی اپیل پر سپریم کورٹ نے 13 جنوری کو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا، ، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ’کیا انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد آرٹیکل 17 کے تحت قائم سیاسی جماعت ختم ہوگئی تھی؟، کیا انتخابی نشان واپس ہونے پر سیاسی جماعت امیدوار کھڑے نہیں کرسکتی؟ تاثر تو ایسا دیا گیا جیسے سیاسی جماعت ختم ہوگئی اور جنازہ نکل گیا‘، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’کیا انتخابی نشان واپس ہونے سے سیاسی جماعت تمام حقوق سے محروم ہوجاتی ہے؟‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ ’نوٹی فکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی، الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی، ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا ہے اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہوچکی تھی‘، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا لیکن عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ’عوام نے کسی آزاد کو نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیے‘، اس موقع پر چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو ججز کے سوالات کے جواب دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ ’آپ اپنے دلائل نہیں دیں گے تو مجھے کیا سمجھ آئے گی کہ آپ کی جانب سے کیا لکھنا ہے؟، میرا خیال ہے فیصل صدیقی ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں‘، اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’یہ ایک غیرذمہ دارانہ بیان ہے، فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق حاصل ہے‘، چیف جسٹس نے کہا ’فیصل صاحب آگے بڑھیں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی‘، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ’اس قسم کا غیرذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیا جا سکتا‘۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ’الیکشن کمیشن نے آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے نہیں روکا، الیکشن کمیشن کہہ سکتا تھا اس جماعت نے تو الیکشن نہیں لڑا، الیکشن کمیشن نے مگر ایسا نہیں کیا لوگوں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کو تسلیم کیا، جب تین دن کا وقت گزر گیا اس کے بعد الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ کو تو مخصوص نشستیں نہیں ملنی، اب وہ لوگ کہہ سکتے ہیں آپ نے شمولیت کروائی اب میں اپنا حق مانگنے آیا ہوں‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’بلے کے نشان والے فیصلے پر لوگوں کو مس گائیڈ کیا گیا، آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں بھی شامل ہو سکتے تھے کوئی پابندی نہیں تھی، مخصوص نشستوں کا معاملہ عوام کا ہے جنہوں نے سنی اتحاد کونسل نہیں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا‘، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم حقیقت کو کیوں نہ دیکھیں، سنی اتحاد کونسل ہمارے سامنے اس لیے ہے کہ اس میں پی ٹی آئی کے جیتے لوگ شامل ہیں‘۔