آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کو کئی شعبوں میں ٹیکس چھوٹ مکمل طور پر ختم کرنا ہوگی‘بنک سے کیش نکلوانے پر ٹیکس میں 3فیصد اضافے پر غور‘ریئل اسٹیٹ‘ آٹوسکیٹر‘ زرعی آمدنی، نان کارپوریٹ کاروبار، سروس پروائڈرز بلڈرز اور کنسٹرکشن فرمزپر بھی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) وفاقی حکومت 7جون کو بجٹ پیش کرنے جارہی ہے جس معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کو کئی شعبوں میں ٹیکس چھوٹ مکمل طور پر ختم کرنا ہوگی کیونکہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (ائی ایم ایف) کے ایک اور پروگرام کے لیے مذاکرات کررہی ہے آئی ایم ایف پروگرام میں پیش رفت کو قانون سازی اور پارلیمنٹ سے کئی اقدامات کی منظوری سے بھی جوڑا جارہاہے جس میں توانائی، پینشن، سرکاری کاروباری اداروں میں اصلاحات ، بجلی گیس کے نرخ، پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن ٹیکس کے نفاذ اور ٹیکس سے متعلق اصلاحات شامل ہیں.
وفاقی حکومت نے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کم کرنے کے اپنے منصوبے سے اور حکومت عملی سے عالمی مالیاتی ادارے کو آگاہ کیا ہے اس وقت صرف توانائی سیکٹر میں خسارہ 2400 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں اس میں 325 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کے مطالبے پر پاکستان کے بجٹ خسارے اور آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکس میں اضافے کے لیے مختلف اقدامات کرنا ہوں گے ان اقدامات کے نتیجے میں کئی ٹیکسز میں اضافہ اور بعض نئے ٹیکس لگنے کا بھی امکان ہے.
بجٹ امور پر نظر رکھنے والے ماہر معیشت عبدالعظیم نے ”وائس آف امریکا“سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آٹو سیکٹر میں ایڈوانس ٹیکس کے نفاذ کی تجویز سامنے آئی ہے جس کے تحت گاڑی کی مالیت پر 10 فیصد نیا ٹیکس عائد کیا جارہا ہے اسی طرح 2 ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر پہلے سے موجود سالانہ ایڈوانس ٹیکس فائلرز کے لیے پانچ لاکھ روپے کیا جارہا ہے جب کہ نان فائلرز کے لیے یہ ٹیکس 24 فیصد مقرر کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے.
انہوں نے کہا کہ اس عمل سے حکومتی ریونیو میں تو اضافہ ہوگا مگر اس سے ملک میں گاڑیوں کی فروخت مزید کم ہو جائے گی ماہر معاشیات منور رضا کا کہنا ہے کہ کریڈٹ کارڈز پر بیرونی ادائیگیوں پر نان فائلرز کے لئے 20 فی صد ٹیکس عائد کیا جارہا ہے جو کہ اچھی تجویز ہے اور اس سے نان فائلرز کی بیرونی اخراجات کی حوصلہ شکنی ہو گی دوسری جانب کریڈٹ کارڈز سے بیرونی ادائیگیاں کرنے والے فائلرز کے لیے ایڈوانس ٹیکس ختم کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے منور رضا کے خیال میں ایسا کرنے سے زرمبادلہ کے آﺅٹ فلو میں اضافہ ہوسکتا ہے اس لیے ان کے خیال میں ملکی معیشت کو درپیش موجودہ حالات میں زیادہ مناسب نہیں ملک سے باہر بزنس کلاس میں سفر کرنے والوں کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے بجائے اب فکس ٹیکس دینا ہوگا جو روٹس کی مناسبت سے طے کیا جائے گا اس پر کم سے کم ٹیکس 75 ہزار روپے سے اڑھائی لاکھ روپے تک رکھنے کی تجویز ہے ماہرین اس ٹیکس کو مثبت قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کررہے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ بزنس کلاس میں سفر کرنے والوں کے لیے یہ ٹیکس دینا کوئی مشکل نہیں ہوگا اور اس کے نفاذ سے غیر ملکی زرِمبادلہ کی بچت ہوگی.
بینکوں سے کیش نکالنے پر نان فائلرز کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جارہا ہے اور اب اس کے لئے نئی شرح اعشاریہ نو فیصد مقرر کی جارہی ہے جو پہلے اعشاریہ چھ فی صد تھی ماہرین کے مطابق اس سے نہ صرف حکومت کے محصولات میں اضافہ ہو گا وہیں نان فائلرز کو فائلرز بننے کی ترغیب ملے گی اور کیش پر کاروبار کی حوصلہ شکنی ہوگی وفاقی حکومت نے زرعی آمدنی، نان کارپوریٹ کاروبار، سروس پروائڈرز بلڈرز اور کنسٹرکشن فرمزپر بھی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ماہرین معیشت اسے اچھا اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کرتے ہیں.
ایک اور تجویز کے تحت بجلی کے دو لاکھ سے زائد والے بلز پر نان فائلرز صارفین کے لیے ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 20 فیصد تک کی جارہی ہے عبدالعظیم کے خیال میں اس عمل سے بھی فائلر بننے کی حوصلہ افزائی ہوگی اور حکومت کے محصولات بھی بڑھیں گے دوسری جانب حکومت نے بجلی اور گیس کے ایسے نان فائلرز صارفین پر بھی ٹیکس کی شرح 30 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کمرشل اور انڈسٹریل کنکشنز رکھتے ہیں.
ماہرین کے خیال میں ایسا کرنے سے حکومت کے محصولات میں اضافہ تو ممکن ہے لیکن صنعتوں کی پیداوارای لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کے منافع میں کمی ہوگی جس کے باعث ملک کی معاشی ترقی میں بھی رکاوٹیں آئیں گی بجٹ کے لیے سیلز ٹیکس کے ساتھ ایکسٹرا سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے شادی ہالز کا بل دو لاکھ روپے سے زائد ہونے کی صورت میں 25 فیصد میرج ہالز ٹیکس بھی لینے کی تجویز بھی زیرغور ہے ماہرین معیشت کے خیال میں اس عمل سے حکومتی ریونیوز میں تو خاطر خواہ اضافہ ہوگا لیکن اس سے مہنگائی بھی بڑے گی اور یوں معاشی ترقی کی رفتار جو پہلے ہی سست ہے مزید کم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگا.
ملک میں پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی کے ساتھ اب حکومت نے ایک بارپھر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لاگو کرنے پر غور کیا جارہا ہے ماہرین کے خیال میں اس عمل سے جہاں مہنگائی بڑھے گی وہیں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں بھی خاطر خواہ کمی ہوسکتی ہے حکومت نے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے اس بار ادویات پر بھی 10 سے 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تیاری کررہی ہے.
ماہرین کے مطابق یقینا اس کے منفی اثرات کے تحت ملک میں دوائیں مزید مہنگی ہوجائیں گی تاہم کئی ماہرین اس امکان کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ عوامی ردعمل کی بنا پر یہ تجویز واپس بھی لی جاسکتی ہے. رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے حکومت کئی تجاویز پر سوچ بچار کررہی ہے ایک تجوزیز کے مطابق زرعی زمین اور پراپرٹی پر اعشاریہ پانچ فی صد ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شہری علاقوں میں 450 گز سے زائد کی پراپرٹی فروخت کرنے پر نان فائلرز کو ساڑھے 10 فی صد ٹیکس ادا کرنا ہوگا تاہم سریے کی فروخت پر عائد ٹیکس چار فیصد ٹیکس ختم کیا جارہا ہے ماہر معاشیات سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ ٹیکس تجاویز سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئی ایم کی شرائط پوری کرنے کے لیے حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اپنے محصولات بڑھائے اور قرضوں پر انحصار کم کرے لیکن اس کے لیے حکومت کا انحصار ایک بار پھر براہ راست ٹیکس کے بجائے بالواسطہ ٹیکس پر زیادہ نظر آتا ہے.
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے لوگ اپنا ٹیکس کسی مجبوری یا خوف کے بجائے خوشی سے دیں‘ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو سہولتیں ملیں لیکن دوسری جانب امیروں پر ٹیکس کے لیے سخت اقدامات کرنا اب ناگزیر ہوچکا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے معاشی اہداف پورا کرنا چاہتی ہے تو زرعی آمدن، تجارت، کاروبار، رئیل اسٹیٹ، ڈیری فارمنگ، اور دیگر شعبوں سے وابستہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا اور ان شعبوں کی آمدن کے حساب سے ٹیکس اکٹھا کرنا ہوگا.