اگلے بیل آﺅٹ پیکج کی دیگر پیشگی شرائط میں جولائی سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور گیس کی قیمتیں ایڈجسٹ کرنا بھی شامل ہے، ایف بی آر کوٹیکس وصولی کا ہدف 12ہزار900 ارب روپے کے قریب مقرر کرنا ہوگا
اسلا م آباد( نیوز ڈیسک ) آئی ایم ایف کی جانب سے تمام اشیاءپر 18فیصد سیلز لگانے کے مطالبے نے حکومت کو مشکلات کا شکار کر دیا ہے ، اگلے بیل آﺅٹ پیکج کی دیگر پیشگی شرائط میں جولائی سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور گیس کی قیمتیں ایڈجسٹ کرنا بھی شامل ہے۔ایکسپریس نیوز کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کے ٹیکس وصولی کا ہدف 12ہزار900 ارب روپے کے قریب مقرر کرنا ہوگا ۔
12.9ٹریلین روپے کے ہدف کا مطلب ہے ایف بی آر کو ایک سال میں 3ہزار700ارب روپے اضافی صرف ایک سال میں وصول کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف نے نئے بیل آﺅٹ پیکچ معاہدے کو ایگزیکٹو بورڈ کی پیشگی منظوری سے جوڑ دیا ہے۔وزارت خزانہ نے وزیراعظم کوبتایا تھا آئندہ مالی سال کے ٹیکس اہداف 12.4ٹریلین روپے ہے جسے بڑھا کر12.9کھرب روپے کردیاگیا۔
آئی ایم ایف مشن کے واپس جانے کے بعد وزارت خزانہ نے وزیراعظم کو بجٹ کے مجموعی حجم اور اخراجات سے متعلق شرائط کے متعلق بریفنگ دی گئی تھی۔
وزیراعظم کوبتایا گیا اگر پاکستان سیلز ٹیکس میں چھوٹ واپس لینے کی شرط پر عمل درآمد کرتا ہے تو پاکستان میں فروخت ہونے والی تمام اشیا پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنا ہو گا، سوائے ضروری کھانے پینے کی اشیاءاور جو خودمختار سودوں کے تحت محفوظ ہیں۔وزیراعظم کوبتایا گیا تمام سیلز ٹیکس چھوٹ واپس لئے بغیر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ممکن نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی شرائط جاننے کے بعد فوری فیصلہ نہیں کیا بلکہ وزارت خزانہ کو ان اقدامات پر نظرثانی کرنے کو کہاہے۔یاد رہے کہ گزشتہ روزآئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر نے کہا تھا کہ پاکستان میں ٹیکس کی وصولی منصفانہ چاہتے ہیں۔پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات ضروری ہیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے مانیٹری پالیسی استعمال کی جائے۔
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان مذاکرات ختم ہو گئے جس کے بعد آئی ایم ایف کے مشن چیف کی جانب سے مذاکرات پر بیان بھی جاری کیا گیا تھا۔آئی ایم چیف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کیلئے طویل مذاکرات کئے گئے پاکستان سے 13 مئی سے 23 مئی تک بات چیت ہوئی۔ پاکستان کی حکومت آمدن بڑھانا چاہتی ہے۔ سرکاری کارپوریشنز کی نجکاری پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔ پاکستان سے پالیسی مذاکرات جاری رہیں گے۔