نیب ترامیم کیس، عمران خان کے دلائل کی باری نہ آسکی‘ سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی

پاکستان تحریک انصاف کے قائد تقریباً 2 گھنٹے 27 منٹ تک عدالتی سماعت میں ویڈیو لنک پر موجود رہے، آئندہ سماعت پر بھی پیش کرنے کی ہدایت کر دی گئی

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) نیب ترامیم کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے دلائل کی باری نہ آسکی اور سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بنچ کا حصہ ہیں، سماعت کے آغاز پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا، وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ ’آپ اصل کیس میں وکیل تھے، آپ کے نہ آنے پر مایوسی تھی، ہم آپ کے مؤقف کو بھی سننا چاہیں گے، کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ ‘، وکیل نے بتایا کہ ’جی میں عدالت کی معاونت کروں گا‘، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’ کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟‘، اس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’مجھے فیس نہیں چاہیے‘۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التوا ہے‘، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’کیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست سماعت کیلئے منظور ہوئی؟‘، وکیل وفاقی حکومت نے بتایا کہ ’جی درخواست سماعت کیلئے منظور ہو چکی ہے‘، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں، اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست کب دائر ہوئی؟‘، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست 4 جولائی 2022ء کو دائر ہوئی، سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6 جولائی 2022ء کو لگا اور سماعت 19 جولائی کو ہوئی‘۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ’ مرکزی کیس پر اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا ؟‘، مخدوم علی خان نے کہا کہ ’2022ء کا پورا سال درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیئے‘، چیف جسٹس نے کہا کہ’ چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا؟‘ ، وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ’کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا، ہم تو چاہتے تھے کیس جلد ختم ہو، میرے علاوہ بہت سے وکلاء نے دلائل دیئے تھے‘، جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ ’مرکزی کیس کی کتنی سماعتیں ہوئی تھیں؟‘، مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’مرکزی کیس کی مجموعی طور پر 53 سماعتیں ہوئی تھیں‘، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ’ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسے قابل سماعت ہوا؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نے اس سوال کا جواب دیا تھا؟ ‘،مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا‘، وکیل مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ’یہ تو بڑا تعجب ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا، چند ترامیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا‘، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’2023ء میں الیکشن کیس ایسی ہی وجوہات پر ہم دو ججز نے ناقابل سماعت کر دیا تھا، ہم نے کہا تھا جو کیس ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اگر تب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے، لاہور ہائیکورٹ نے جو الیکشن کا فیصلہ دیا تھا اس کیخلاف انٹرا کورٹ حکم جاری نہیں ہوا تھا‘، چیف جسٹس نے استفسار کہ ’الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کا آرڈر آف کورٹ کہا ہے؟ ‘، مخدوم علی خان نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ وہ آرڈر اسی نکتے پر اختلاف کی وجہ سے جاری نہیں ہوا‘، چیف جسٹس نے جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمہ کیا کہ ’آپ جب میرے ساتھ بنچ میں بیٹھے ہم نے تو 12 دن میں الیکشن کروا دیئے، آپ جس بنچ کی بات کر رہے ہیں اس میں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میں نہیں تھا‘۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا، پریکٹس اینڈ پروسیجر معطل کرنا درست تھا یا غلط مگر بہر حال اس عدالت کے حکم سے معطل تھا، ایکٹ معطل ہونے کے سبب کمیٹی کا وجود نہیں تھا‘، وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے بتایا کہ ’بنچ کے ایک رکن منصور علی شاہ نے رائے دی کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کو طے کئے بغیر نیب کیس پر کارروائی آگے نہ بڑھائی جائے‘، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ’قانون درست نہیں ہے تو اسے کالعدم قرار دے دیں، اگر قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کر دیں‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’بل کی سطح پر قانون کو معطل کرنا کیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں؟ ‘، چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کریں؟ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے، ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے؟، اگر مجھے کوئی قانون پسند نہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے؟ کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے؟ ایک قانون کو معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کر فیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کر کے بنچ اس کے خلاف بنا کر دیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں؟‘۔
اس موقع پر مخدوم علی خان نے کہا کہ ’آپ نے بطور سینئر ترین جج یہ نکتہ اٹھایا تھا‘، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’آپ اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نکتہ نظر نہیں؟‘، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اپیل متاثرہ فریق دائر کر سکتا ہے اور وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے، حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس ایند پروسیجر کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا‘، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ’ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لا سکتا ہے‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا، متاثرہ فریق میں پھر بل پاس کرنے والے حکومتی بینچ کے ممبران بھی آ سکتے ہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150 درخواست گزار کھڑے ہوں گے‘۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’قانون سازوں نے ہی متاثرہ فریق کے الفاظ لکھے ہیں‘، چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ ’اگر کوئی مقدمہ عدالت آئے تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے، قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے،قانون کو معطل کرنے کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا‘، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا‘، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق دو کے تحت اپیل متاثرہ شخص کر سکتا ہے، حکومت متاثرہ فرد کیسے ہوتی ہے؟‘، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ’ اگر سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی؟‘، حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ ’بالکل حکومت اپیل کر سکتی ہے‘، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’پھر آگے بڑھیں‘۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ’ 2022 ءکے فالو اپ پر 2023 ءکی ترامیم بھی آئیں تھیں، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دیں‘، چیف جسٹس نے کہا کہ ’تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھا رہے ہیں‘، جس پر وکیل مخدوم علی کا کہنا تھا کہ ’یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجود ہے، عمران خان وزیر اعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگر آرڈیننس لائے، نیب ترامیم کا معاملہ پارلیمانی تنازعہ تھا جسے سپریم کورٹ لایا گیا، یہ ملی بھگت سے معاملہ سپریم کورٹ لایا گیا‘، اس پر عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا کسی بل پر کوئی پارٹی رکن اپنی پارٹی فیصلے کیخلاف ووٹ دے سکتا ہے؟‘، چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس معاملے پر نظرثانی درخواست موجود ہے‘، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’مخدوم صاحب کرپشن کے خلاف مضبوط پارلیمان، آزاد عدلیہ اور بے خوف لیڈر کا ہونا ضروری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں؟، یہاں تو اسے ختم کرنے کیلئے کوئی اور آرڈیننس لایا جا رہا ہے‘، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، آرڈیبنس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں؟، کیا آرڈیننس کے ساتھ تو صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہئیں؟‘، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’پارلیمان کو مضبوط بنانا سیاستدانوں کا ہی کام ہے‘، بعد ازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔