پاکستان مجموعی قومی پیداوار کے نصف فیصد (0.5%) مزید محصولات جمع کرے جس کا مجموعی حجم 600 ارب روپے بنتا ہے،متعدد پنشن سکیمیں جن پر ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے اسے واپس لیا جائے،عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)
اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )نے پاکستان سے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن پر ٹیکس لگانے کا نیا مطالبہ کر دیا، پاکستان مجموعی قومی پیداوار کے نصف فیصد (0.5%) مزید محصولات جمع کرے جس کا مجموعی حجم 600 ارب روپے بنتا ہے اور یہ ٹیکس تنخواہ دار اور کاروباری طبقے سے وصول کیا جائے گا۔آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان پر زیادہ زور اس بات پر دیا جارہا ہے کہ وہ ایف بی آر کی جانب سے محصولات میں اضافے پر توجہ دے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ متعدد پنشن سکیمیں جن پر ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے اسے واپس لیا جائے۔آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے درمیان آج (جمعہ) سے مذاکرات کا آغاز ہوگا جن میں 2مختلف بیل آﺅٹ پیکیج پر بات چیت ہوگی۔
آئی ایم ایف پاکستان کے مشن کے سربراہ آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے۔پاکستان دو مختلف قرض کا حصول چاہتا ہے جن میں سے ایک بنیادی ڈھانچے کی اصلاحات کیلئے ہوگا جبکہ دوسرا قرض موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے میں استعمال ہوگا۔
آئی ایم ایف کا یہ 24 واں پروگرام ہوگا پاکستان کیلئے جسے اب تک کا سب سے مشکل ترین قرض پروگرام کہا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پنشن لینے والے افراد پر ٹیکس کا نفاذ ان بہت سی تجاویز میں شامل ہے جو ادارہ چاہتا ہے کہ آنے والے بجٹ میں شامل کی جائے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے نئے قرض کے حجم اور اس کی مدت کے بارے میں ابھی حتمی معاملات طے نہیں ہوئے ہیں تاہم جلد ہی اسے حتمی شکل دے دی جائے گی۔آئی ایم ایف کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے اگر حکومت ریٹائرڈ افراد کی پنشن پر ٹیکس عائد کرتی ہے اور دیگر مراعات کا خاتمہ کرتی ہے تو اس سے سالانہ 22 سے 25 ارب روپے اضافی حاصل ہوں گے۔