ملک میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی ڈیزل اور پٹرول کی سمگلنگ سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا نقصان ہونے کا انکشاف، سمگل شدہ تیل سب سے زیادہ سندھ میں استعمال ہوتا ہے
کوئٹہ ( نیوز ڈیسک ) ایرانی تیل کی سمگلنگ میں کئی موجودہ اور سابق وزراء اور سیاستدانوں کے ملوث ہونے کا انکشاف، ملک میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی ڈیزل اور پٹرول کی سمگلنگ سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا نقصان ہونے کا انکشاف، سمگل شدہ تیل سب سے زیادہ سندھ میں استعمال ہوتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ملک کے سول حساس ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایرانی تیل کی سمگلنگ میں دوبارہ اضافہ ہورہا ہے۔
ملک میں ہر روز 89 لاکھ لیٹر چاغی، واشک،پنجگور، کیچ کے 5زمینی اور گوادر کے ایک سمندری راستے سے سمگل کرکے لایا جارہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی ڈیزل اور پٹرول سمگل کرکے لایا جارہا ہے جس سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
اسمگل شدہ ایرانی تیل کا تقریباً 45 فیصد سندھ اور 25 فیصد پنجاب اور خیبر پشتونخوا میں منتقل کیا جاتا ہے جبکہ 30 فیصد بلوچستان میں استعمال ہوتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کی لگ بھگ 15 فیصد آبادی کا روزگار ایرانی تیل کی سمگلنگ سے وابستہ ہے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایرانی تیل کی سمگلنگ میں بلوچستان کے کئی موجودہ اور سابق وزراء اور سیاستدان بھی ملوث ہیں۔ ان میں سابق صوبائی اسد بلوچ، لالہ رشید بلوچ، حمل کلمتی، سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے بھائی جمیل بزنجو، سابق صوبائی وزیر محمد خان لہڑی کے بھائی آصف لہڑی سمیت کئی دیگر سیاستدان شامل ہیں۔
رپورٹ میں چاروں صوبوں کے 105 سمگلروں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ اسی طرح چاروں صوبوں کے کسٹم، پولیس، لیویز ، ضلعی انتظامیہ ، بارڈر پولیس سمیت مختلف محکموں کے ان 100 کرپٹ اہلکاروں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جو ایرانی تیل کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب ، سندھ ، خیبر پشتونخوا اور بلوچستان میں ایرانی تیل کی فروخت میں 533ملوث غیر قانونی اور غیر لائسنس یافتہ پٹرول پمپس ملوث ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاگیا ہے کہ ایرانی تیل کی سمگلنگ سے حاصل ہونیوالے آمدنی میں سے کالعدم تنظیمیں بھی حصہ وصول کرتی ہیں۔ادائگیوں کے لیے حوالہ ہنڈی کا ستعمال ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں مشترکہ چیک پوسٹوں کی کارکردگی بہتر نہیں۔بلوچستان اور خیبرپشتونخوا میں اہلکار رشوت اور سمگلروں کے ساتھ ملی بھگت میں ملوث ہیں۔ حساس ادارے نے اپنی رپورٹ میں سمگلنگ کی روک تھام کے لیے سخت روک تھام ،ملوث عناصر کو سزائیں دینے ، اور چیک پوسٹوں کی نگرانی کے لیے کیمروں کی تنصیب اور چیک پوسٹوں پر جانچ پڑتال کے بعد اہلکاروں کی تعیناتی کی تجاویز دی گئی ہیں۔