سالانہ بنیادوں پر تجارتی خسارے میں 180اعشاریہ58 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اورمجموعی طور پر تجارتی خسارہ 2 ارب 37 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز رہا.وفاقی ادارہ شماریات‘حکومت نے رواں مالی سال میں بلندترین شرح سود پر 57 کھرب 36 ارب روپے کا ریکارڈ قرضہ لیا.اسٹیٹ بنک آف پاکستان
اسلام آباد/کراچی( نیوز ڈیسک ) رواں مالی سال جولائی سے مارچ مالی خسارہ 4 ہزار 337 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے وزارت خزانہ کی مالیاتی رپورٹ کے مطابق حکومتی آمدن 13 ہزار 682 ارب روپے رہی جبکہ اخراجات 9 ہزار 780 ارب سے تجاوز کر گئے جولائی سے مارچ تک قرض پر سود کی مد میں 5 ہزار 517 ارب روپے خرچ ہوئے،ایف بی آر نے جولائی سے مارچ تک 6 ہزار 711 ارب روپے ٹیکس جمع کیا.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو 3815 ارب روپے منتقل کیے گئے،نان ٹیکس ریونیو 2517 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا پیٹرولیم لیوی کی مد میں صارفین سے ریکارڈ 719 ارب 59 کروڑ روپے وصول کیئے گئے جوگزشتہ سال وصول کی گئی پیٹرولیم لیوی سے 247 ارب روپے زیادہ ہے .
ملکی دفاع پر 1222 ارب روپے،ترقیاتی منصوبوں پر 270 ارب روپے ،سبسڈیز کی مدمیں 473 ارب روپے،پنشن ادائیگی کی مد میں 611 ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوئے دوسری جانب وفاقی ادارہ شماریات نے بتایا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر تجارتی خسارے میں 180اعشاریہ58 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اورمجموعی طور پر تجارتی خسارہ 2 ارب 37 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز رہا جبکہ اپریل میں ماہانہ بنیادوں پر تجارتی خسارے میں 3اعشاریہ16 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا .
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ اپریل میں تجارتی خسارہ 2 ارب 37 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز رہا، رواں مالی سال 10 ماہ میں تجارتی خسارے میں 17اعشاریہ9 فیصد کی کمی ہوئی اور جولائی تا اپریل تجارتی خسارہ 19 ارب 51 کروڑ ڈالرز رہا ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ اپریل میں سالانہ بنیادوں پر برآمدات میں 10اعشاریہ صفردوفیصد اضافہ ہوا، تاہم ماہانہ بنیادوں پر برآمدات میں 8اعشاریہ67 فیصد کی کمی ہوئی اور یہ 2 ارب 34 کروڑ ڈالرز رہیں.
ادارہ شماریات کے مطابق جولائی 2023 تا اپریل 2024 ملکی برآمدات میں 9اعشاریہ10 فیصد اضافہ ہوا اور 10 ماہ میں برآمدات کا حجم 25 ارب 28 کروڑ ڈالرز رہا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپریل میں درآمدات کا حجم 4 ارب 72 کروڑ ڈالرز رہا، رواں مالی سال کے 10 ماہ میں درآمدات میں 4اعشاریہ صفرنو فیصد کی کمی رکارڈ کی گئی اور اس مدت میں درآمدات 44 ارب 79 کروڑ ڈالرز رہیں.
اسٹیٹ بنک کا کہنا ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ (جولائی تا اپریل) کے دوران بلند شرح سود پر 57 کھرب 36 ارب روپے کا ریکارڈ قرضہ لیا مرکزی بنک کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کرنسی کی لاگت بلند ہونے کے باوجود موجودہ حکومت بینکوں سے بھاری قرضے لے رہی ہے جس کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں معمولی استحکام کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے.
مرکزی بینک نے بنتایا ہے کہ حکومت نے مالی سال 2024 میں جولائی تا اپریل کے دوران 57 کھرب 36 ارب روپے کے قرضے لیے جبکہ رواں مالی سال جولائی تا مارچ کے دوران سود کی مد میں 55 کھرب 17 ارب روپے کی ادائیگی کی اس سے صورتحال کی سنگینی کا پتا چلتا ہے، رواں مالی سال کے دوران قرضہ صرف موجودہ حکومت نہیں بلکہ نگران حکومت نے بھی لیا وہ بھی بھاری قرضے لینے کی ذمہ دار ہے 30 اپریل کو ٹریژری بلوں کی آخری نیلامی میں، 3، 6 اور 12 ماہ کے کاغذات کا اوسط منافع 21 فیصد تھا، قرضوں پر 21 فیصد کا منافع حقیقی طور پر قرضوں کا پھندا ہے، جس کے سبب حکومت سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پر مجبور ہوتی ہے اسٹیٹ بینک مہنگائی کے دباﺅ کے خوف کے سبب شرح سود میں کمی کرنے سے قاصر ہے، جبکہ رواں مالی سال کے دوران منفی نمو یا انتہائی ناقص ترقی کی توقعات کو نظر انداز کر رہا ہے.
تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران سود کی ادائیگی محصولات وصولی کے 76 فیصد کے برابر رہی، سود کی ادائیگی (55 کھرب 17 ارب روپے) مالی سال 2024 میں جولائی تا اپریل کے دوران لیے گئے قرضوں (57 کھرب 35 ارب روپے) کے تقریباً برابر رہی، یہ ایک سنگین صورتحال ہے کیونکہ سود کی رقم مجموعی آمدنی سے 56 فیصد سے زائد ہو چکی ہے.
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ مالی سال 2023 کے دوران قرضوں پر سود کی ادائیگی 59 کھرب 35 ارب روپے رہی، جس کا حجم گزشتہ مالی سال کے دوران 33 کھرب 31 ارب روپے رہا تھا، مالی سال 2023 میں جی ڈی پی کا حجم نمایاں طور پر بڑھ کر 846 کھرب 57 ارب روپے رہا، جو مالی سال کے دوران 666 کھرب 23 ارب روپے رہا تھا مالی سال 2024 کے دوران قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے تقریباً 73 کھرب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اس کا حصہ 144 کھرب 60 ارب روپے کے مجموعی بجٹ میں 50.5 فیصد بنتا ہے.