بے ضابطگیوں اور آزادانہ مشاہدے پر پابندیوں نے انتخابی عمل پر شکوک و شہبات کو بڑھا دیا

لاہور کے پانچ حلقوں میں ووٹر ٹرن آٹ میں سب سے زیادہ کمی ہوئی، 21 اپریل کے ضمنی الیکشن سے متعلق فافن کی رپورٹ

لاہور ( نیوز ڈیسک ) 21 اپریل کے ضمنی الیکشن سے متعلق فافن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے ضابطگیوں اور آزادانہ مشاہدے پر پابندیوں نے انتخابی عمل پر شکوک و شہبات کو بڑھا دیا، لاہور کے پانچ حلقوں میں ووٹر ٹرن آٹ میں سب سے زیادہ کمی ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نے ضمنی انتخابات کے حوالے سے رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق مختلف حلقوں میں اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسرز کی طرف سے بیلٹ پیپرز جاری کرنے کی ضروریات میں کوتاہی کے واقعات تقریبا 14 فیصد مشاہدہ شدہ پولنگ سٹیشنوں سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پولنگ ایجنٹس اور تسلیم شدہ مبصرین کو عام طور پر ووٹنگ اور گنتی کے عمل تک رسائی حاصل تھی تاہم سیکورٹی حکام اور پریذائیڈنگ افسران نے فافن کے مبصرین کوپی پی 36وزیر آباد اورپی پی 22 چکوال کم تلہ گنگ کے 19 پولنگ سٹیشنوں پر انتخابی عمل کا مشاہدہ کرنے سے روک دیا، جبکہ پی پی22 میں، فافن مبصرین کی ایکریڈیٹیشن کا عمل بھی پولنگ کے دن دوپہر تک تاخیر کا شکار رہا جس کی وجہ سے مشاہدے کے دائرہ کار میں آخری لمحات میں تبدیلیاں آئیں۔
رپورٹ کے مطابق تقریبا 36 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جوکہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے مقابلے میں ٹرن آوٹ نو فیصد کم رہا ۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کے پولنگ ووٹوں میں 12 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ مردوں کے پولنگ ووٹوں میں نو فیصد کمی واقع ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق عام انتخابات کے بعد انتخابی فہرستوں میں 75,640 رجسٹرڈ ووٹرز کا اضافہ ہوا، جن میں 37,684 مرد اور 37,956 خواتین شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق لاہور کے پانچ حلقوں میں ووٹر ٹرن آٹ میں سب سے زیادہ کمی پی پی 147 میں ریکارڈ کی گئی جو کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں 35 فیصد کے مقابلے میں محض 14 فیصد رہی اسی طرح این اے 119 لاہور میں 8 فروری کو 39 فیصد کے مقابلے 19 فیصد ٹرن آوٹ ریکارڈ کیا گیا ۔ رپورٹ کے مطابق گجرات اور خضدار کے حلقوں میں عام انتخابات کے مقابلے میں ٹرن آٹ میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، رپورٹ کے مطابق ضمنی انتخابات کے دوران گنتی سے خارج کر دیے گئے بیلٹس کی تعداد میں بھی کمی آئی، جو عام انتخابات کے دوران غلط بیلٹس کی تعداد (72,472) کے مقابلے میں تقریبا نصف (35,574) رہ گئی اس کے علاوہ، کوئی حلقہ ایسا نہیں تھا جہاں مسترد شدہ بیلٹ عام انتخابات میں فتح کے مارجن سے زیادہ تھے۔
رپورٹ کے مطابق عام انتخابات کے دوران جیتنے والی جماعتوں نے ضمنی انتخابات میں پی پی 36 وزیر آباد اور پی پی 93 بھکر کے علاوہ اپنی نشستیں برقرار رکھی تھیں ان حلقوں سے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار اور ایک آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی تھی، تاہم ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ یہ دونوں ان چار حلقوں میں شامل تھے جہاں عام انتخابات کے مقابلے جیت کا مارجن کم ہوا ہے، باقی حلقوں کے برعکس جہاں جیت کا مارجن بڑھ گیا ہے۔
ضمنی انتخابات چار حلقوں میں امیدواروں کی موت اور 19 میں جیتنے والے امیدواروں کی نشستوں کے خالی ہونے کی وجہ سے ضروری تھے ، رپورٹ کے مطابق این اے 207 کے لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایک آزاد امیدوار نے سندھ ہائی کورٹ میں یہ دعوی کرتے ہوئے بلامقابلہ انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی کہ ان کے کاغذات نامزدگی کو ریٹرننگ افسر نے غلط طریقے سے مسترد کر دیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی فہرستوں کے مطابق 22 حلقوں کے لیے کل 264 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں 256 مرد اور آٹھ خواتین شامل ہیں۔ ان 264 میں سے 88 امیدواروں نے 21 سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کی جبکہ باقی 176 نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔ ای سی پی نے 6.3 ملین سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز کو پورا کرنے کے لیے 4,238 پولنگ سٹیشنز بنائے تھے 935 مرد، 899 خواتین اور 2,404 مشترکہ جن میں 13,811 پولنگ بوتھ 6,778 مرد اور 7,033 خواتین شامل تھے۔
فافن نے 259 الیکشن ڈے مبصرین کو تعینات کیا، جن میں 187 مرد اور 72 خواتین شامل ہیں، پانچ قومی اسمبلی اور 17 صوبائی اسمبلی کے حلقوں (12 پنجاب، تین بلوچستان اور دو خیبر پختونخواہ میں) کے 1,036 پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ اور گنتی کے عمل کا مشاہدہ کرنے کے لیے فافن کے مطابق یہ رپورٹ ضمنی الیکشن کے روز آبزرویشن موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے 532 پولنگ سٹیشنوں سے الیکشن کے دن موصول ہونے والے مشاہدات پر مبنی ہے۔