معاہدہ ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری سے مشروط قرار دے دیا گیا
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ ہوچکا ہے، اس حوالے سے آئی ایم ایف مشن نے پانچ روزہ دورے کے دوران اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کیں اس دوران قرض کے لیے مقرر کردہ مالیاتی استحکام کے معیارات کا جائزہ لیا گیا، آئی ایم ایف نے 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کا جائزہ لیا، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 1 اعشاریہ 1 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی معاہدہ ہوگیا، تاہم پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کا یہ معاہدہ آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے، پاکستان کو ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی قسط ملتے ہی 3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ ختم ہو جائے گا۔
بتایا گیا ہے کہ اعلامیہ میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے معاشی اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہلے جائزے کے بعد کے مہینوں میں پاکستان کی معاشی اور مالی حالت بہتر ہوئی، بااعتماد پالیسی مینجمنٹ کی پشت پر ترقی اور اعتماد کی بحالی جاری ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نگران حکومت کی جانب سے حالیہ مہینوں میں آئی ایم ایف شرائط پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا، اسی طرح نئی حکومت نے بھی پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لیے ان پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
دوسری طرف سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ ایک طرف برآمد کنندگان کو دبایا جارہا ہے اور دوسری طرف گیس و بجلی کی قیمتیں بڑھا کر صنعتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، 90 لاکھ مزدور بے روزگار ہیں، غربت 35 فیصد سے بڑھ کر 45 فیصد ہوگئی ہے اور 11 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ چیمبر آف کامرس میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے روزگار اور بے کار نوجوانوں کی تعداد 2 کروڑ ہو چکی ہے جو کسی بم سے کم نہیں، صنعتی شعبے پر ٹیکسوں کا 5 گنا زائد بوجھ ہے، حکومت نے ایسے 5 ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کیے جو اس نے نہیں لیے جبکہ پاور سیکٹر کو پیداواری صلاحیت کی مد 8 ارب سالانہ دیے جا رہے ہیں، دس سال سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو نجکاری میں دینے کی بات ہو رہی ہے، پی آئی اے پر 800 ارب روپے قرض ہے اور اسے 30 سے 40 ارب روپے کی سالانہ سبسڈی دی جارہی ہے۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی طرح نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) 168 ارب روپے سالانہ نقصان کر رہی ہے، ترقیاتی پروگرام کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، برآمدات میں اسمال انٹرپرائزز کا حصہ 4 سے 5 ارب ڈالر ہے، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین سال کے لیے 6 ارب ڈالر مل جائیں گے، تاہم 100 ارب روپے روزانہ کی آمدن چاہیے جس سے سود اور قرضوں کی واپسی ہوگی۔