الیکشن لڑنے کی جو اہلیت بیان کی گئی قائداعظم بھی ہوتے تو نااہل ہوجاتے، چیف جسٹس

ایک مسلمان صادق اور امین کے لفظ آخری نبی ﷺ کے سوا کسی کیلئے استعمال کر ہی نہیں سکتا‘ یہ کیسے ہوسکتا ہے سزا کے بعد کوئی کبھی الیکشن نہ لڑسکے؟ تاحیات نااہلی کیس میں ریمارکس، سماعت 4 جنوری تک ملتوی

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ الیکشن لڑنے کی جو اہلیت بیان کی گئی قائداعظم بھی ہوتے تو نااہل ہوجاتے، کسی شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہوجاتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سزا کے بعد کبھی انتخابات نہ لڑسکے؟۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بنچ نے تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی، عدالت عظمیٰ کے لارجر بنچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں، کیس کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ’آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلےکا دوبارہ جائزہ لیا جائے‘، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو کسی نے چیلنج کیا؟ تمام ایڈووکیٹ جنرلز اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں یا مخالفت کریں گے؟‘ اس پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کردی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’اٹارنی جنرل آپ کا مؤقف کیا ہے؟ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیئے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟‘ اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت سے درخواست ہے تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے جب کہ الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے‘۔ معلوم ہوا ہے کہ سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر میربادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزارکے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کی اور کہا کہ ’میں نے 2018ء میں درخواست دائرکی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا، اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل ہوچکا ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 آنے پرتاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کررہا‘۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’الیکشن ایکٹ 2017ء کو کیا کسی نے عدالت میں چیلنج کیا؟‘ عدالت کو بتایا گیا کہ ’الیکشن ایکٹ کو کبھی کسی کے عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’تاثر ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک قانون سے سپریم کورٹ فیصلے کو اوور رائٹ کیا گیا، سمیع اللہ بلوچ کیس میں عدالت نے ایک نقطے کو نظر انداز کیا اور جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم تو گناہ گارہیں اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں، آرٹیکل62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی، نااہلی کی مدت کا تعین آئین میں نہیں، اس خلا کو عدالتوں نے پُر کیا‘، اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے دریافت کہ ’سوال یہ ہے کیا الیکشن ایکٹ میں دی گئی نااہلی کی مدت آئین سے زیادہ اہم تصور ہو گی؟ آرٹیکل 63 کی تشریح کا معاملہ ہے، سنگین غداری کرے تو الیکشن لڑ سکتا ہے، سول کورٹ سے معمولی جرائم میں سزا یافتہ الیکشن نہیں لڑ سکتا، کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کوختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جولکھا ہے اسے قانون سازی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟‘۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل62 ون ایف میں نااہلی کی میعاد کا ذکرنہیں ہے‘، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے نااہلی تاحیات رہے گی‘، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ’قتل اورملک سے غداری جیسے سنگین جرم میں آپ کچھ عرصے بعد انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، معمولی وجوہات کی بنیاد پرتاحیات نااہلی غیرمناسب نہیں لگتی؟ عدالت کسی شخص کے خلاف ڈکلیئریشن کیسے دے سکتی ہے؟‘۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آرٹیکل62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک سی ہے، آرٹیکل63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اورنظریے کی خلاف ورزی کرنے والے کی نااہلی 5 سال ہے، کیا کوئی شخص حلفیہ طورپرکہہ سکتا ہے کہ وہ اچھے کردارکا مالک ہے؟ اگر 2002ء میں قائد اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے‘۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جس فوجی آمر نے 1985 میں آئین کو روندا، اسی نے آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کیا، ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟ اس موقع پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے فیصلے میں آرٹیکل 62 اور 63 کو الگ الگ دیکھ کر غلط فیصلہ کیا‘، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کے فیصلے میں سقم ہے؟ اب قانون کا اطلاق ہوگا، آپ کیوں نااہل ہوئے؟‘، مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’مس ڈیکلریشن کے سبب نااہلی ہوئی، سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا پہلے مرحلے میں جو فیصلہ دیا، اسے دوسرے مرحلے میں بغیر وجہ بتائے تبدیل کر دیا‘۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 4 جنوری ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔