اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی اپیل پر میرٹ پر سماعت کرنے کا فیصلہ کرلیا
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کو معاملہ واپس بھجوانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی اپیل پر میرٹ پر سماعت کا فیصلہ کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں قائد ن لیگ اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کیخلاف اپیل پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب سماعت کر رہے ہیں، دوران سماعت نیب نے نواز شریف کیخلاف العزیزیہ ریفرنس فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی، اس حوالے سے نیب پراسیکوٹرنے عدالت کے روبرو کہا کہ عدالت فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ریمانڈ بیک کر دے، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کی استدعا مسترد کردی اور ریمارکس دیئے کہ العزیزیہ ریفرنس میرٹ پر یہی عدالت سنے گی۔
قائد ن لیگ کے وکیل وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’یہ اپیل 24 دسمبر 2018ء کے فیصلے کیخلاف ہے‘، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا یہ پانامہ کیس سے متعلق ہے؟‘ امجد پرویز نے جواب دیا کہ ’جی یہ پانامہ سے متعلق ہے، پانامہ کیسز میں تین ریفرنسز دائر کیے گئے تھے، فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو بری کیا تھا، یہ تینوں ریفرنسز سپریم کورٹ کے ایک ہی حکم نامے کا نتیجہ تھے، درخواست گزار کا اعتراض ہے کہ چوں کہ ان ریفرنسز میں الزامات آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہیں تو ریفرنس بھی ایک ہی دائر ہونا چاہیے تھا، احتساب عدالت نے ٹرائل الگ الگ کیا لیکن فیصلہ ایک ساتھ سنانے کا کہا تھا‘۔
نوازشریف کے وکیل نے مزید کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کاایک ساتھ ہی فیصلہ سنانے کا حکم برقرار رکھا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ایک ساتھ تینوں کیسز کے فیصلے سے آسمان نہیں گر جائے گا‘۔ دوران سماعت جب عدالت نے استفسار کیا کہ اس میں الزام کیا تھا‘؟ تو امجد پرویز نے بتایا کہ ’آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس تھا، اس کیس میں 22 گواہ ہیں جن میں 13 وہ ہیں جنہوں نے ریکارڈ پیش کیا، وقوعہ کا کوئی چشم دید گواہ نہیں، دو سیزر میمو کے پانچ اور دو لیڈ گواہ ہیں، صرف دو گواہ رہ گئے ہیں، ایک محبوب عالم اور دوسرے واجد ضیاء ہیں، ان میں سے ایک نیب کے تفتیشی افسر اور دوسرے جے آئی ٹی کے سربراہ ہیں‘۔
امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ میں ان گواہوں کے بیانات سے کچھ پورشن عدالت میں پڑھ کر سناؤں گا، کہ ایون فیلڈ میں بچوں کی عمریں کم تھیں، اس ریفرنس میں چارج میں لکھا ہوا ہے حسین نواز کی عمر 28 سال تھی، واجد ضیاء اور محبوب عالم ثابت نہیں کر سکے کہ حسین نواز نواز شریف کی زیر کفالت تھے یہ کیس پچھلے کیس سے اس لیے بہتر ہے کہ نواز شریف 12 اکتوبر 1999ء سے مئی 2013ء تک پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے‘۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو کا معاملہ عدالت کے سامنے اٹھایا اور کہا کہ ’نواز شریف کے وکلاء میرٹ پر دلائل دے رہے ہیں لیکن اُس سے پہلے اِن کی سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج سے متعلق ایک درخواست موجود ہے اس کو پہلے دیکھ لیں‘، جس پر نوازشریف کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’جج ویڈیو اسیکنڈل سے متعلق اپنی درخواست کی پیروی نہیں کریں گے، وہ جج صاحب اب وفات پا چکے ہیں اس معاملے پر مزید بات کرنا مناسب نہیں رہا، اس لیے مجھے ہدایت دی گئی ہے جج ارشد ملک ویڈیو اسیکنڈل سے متعلق درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، میں جج ارشد ملک کے حوالے سے دعا گو ہوں‘۔