انتخابات میں تاخیر کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کیلئے جلد سماعت کی درخواست دائر

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کو انتخابات میں تاخیر کا ذمہ دار قراردیا‘ تاخیر کے ذمہ دار ہی الیکشن کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں درخواست گزار کا مؤقف

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں ملک میں عام انتخابات میں تاخیر کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کیلئے جلد سماعت کی درخواست دائر کردی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ میں ملک میں 90 روز میں انتخابات کے معاملے میں اب الیکشن میں تاخیر کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے جلد سماعت کی درخواست دائر کی گئی ہے، اس حوالے سے وکیل اور سیاسی رہنماء ظفر علی شاہ نے کیس کی جلد سماعت کی درخواست دائر کی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کو انتخابات میں تاخیر کا ذمہ دار قرار دیا، سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی آبزرویشن کے باوجود انتخابات موجودہ سیٹ اپ کے تحت ہی ہو رہے ہیں اور انتخابات میں تاخیر کے ذمہ دار ہی الیکشن کروانے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔
درخواست گزار کا اپنی پٹیشن میں کہنا ہے کہ درخواست میں انتہائی اہم آئینی نکتے کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن درخواست کو نمبر لگنے کے باوجود گزشتہ 8 ماہ سے کیس سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ درخواست کو 4 دسمبر سے شروع ہونے والی ہفتے میں سماعت کیلئے مقرر کرے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں 90 روز میں عام انتخابات کے کیس میں جسٹس اطہر من اللّٰہ کا 41 صفحات کا اضافی نوٹ سامنے آیا، جس میں کہا گیا کہ پاکستانی ووٹرز کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا بنیادی حقوق کے منافی ہے، آئین و قانون کے برخلاف نگران حکومتوں کے ذریعے امور چلائے جا رہے ہیں۔ اضافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے جج کا کہنا ہے کہ مقررہ وقت میں انتخابات آئینی تقاضا ہے، انتخابات نہ کروا کر عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہو چکی، 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 390 رجسٹرڈ ووٹرز کو ان کے حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا، انتخابات میں تاخیر کو روکنے کیلئے مستقبل میں ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینے میں صدر نہ ہی الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری نبھائی، قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 7 نومبر تک انتخابات کرانا آئینی تقاضا ہے، نگران حکومت آئین میں دی گئی مدت کیلئے ہوتی ہے، عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا، 90 روز میں الیکشن نہ کرانا آئین کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے، آئینی خلاف ورزی اب ہو چکی اور اس کو مزید ہونے سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔
اضافی نوٹ میں درج ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا آرٹیکل 48 شق پانچ کے تحت صدر مملکت کا ہی اختیار ہے، یہ یقینی بنانا صدر مملکت کی ذمہ داری تھی کہ پاکستان کی عوام اپنے ووٹ کے حق سے 90 دن سے زیادہ محروم نہ رہیں، الیکشن کمیشن اور صدر مملکت نے 8 فروری کی تاریخ دے کر خود کو آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا، 90 روز میں انتخابات نہ کرانے کی آئینی اور عوامی حقوق کی خلاف ورزی اتنی سنگین ہے کہ اس کا کوئی علاج ممکن نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ اگر صدر مملکت یا گورنر انتخابات کی تاریخ دینے کی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا تھا، الیکشن کمیشن کو آئین بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تھا، صدر مملکت اور گورنرز کو اپنے منصب کے مطابق نیوٹرل رہنا چاہئے، الیکشن کمیشن صدر یا گورنرز کے ایکشن نہ لینے پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔