آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023“ کے حوالے سے اہم پریس کانفرنس کا انعقادحسینہ معین ہال میں کیا گیا۔
اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، معروف شاعر افتخار عارف، سینئر صحافی غازی صلاح الدین، معروف ادیبہ نور الہدیٰ شاہ ، قدسیہ اکبر اور سیکریٹری آرٹس کونسل اعجاز فاروقی نے بریفنگ دی۔
صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ آج ہمارے لیے سب سے بڑا دن ہے، 30 نومبر کو شام 4 بجے چار روزہ 16ویں عالمی اردو کانفرنس کا افتتاح وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کریں گے۔
انہوں نے کہا کانفرنس میں 200 سے زائد ادیب شرکت کریں گے، بھارت سے گلزار اور جاوید صدیقی آن لائن شریک ہوں گے، انہوں نے کہا شمیم حنفی، انتظار حسین، یوسفی صاحب سمیت مجھے اپنے سارے بزرگ یاد آتے ہیں، میں میڈیا کا شکر گزار ہوں جن کا عالمی اردو کانفرنس میں بہت اہم کردار ہے۔
محمد احمد شاہ نے کہا کہ عالمی اردو کانفرنس ایک روایت ہے اس کے بعد بہت سارے فیسٹیول شروع ہوئے، ہم نے پاکستان لٹریچر فیسٹیول کی بنیاد ڈالی، پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں اردو، سندھی سمیت تمام زبانوں کے ادیب ایک اسٹیج پر اکٹھے بہت خوش تھے۔
انہوں نے کہا کہ چند برس پہلے ہم نے سوچا کہ کے اردو کانفرنس میں سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی سمیت دیگر زبانوں پر بھی سیشن ہونا چاہئیں۔ نفرت بہت زیادہ ہوچکی ہے وقت بہت گزر چکا ہے، کون نہیں چاہتا کہ ادب کو عام کر دیا جائے، ہمیں نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع دینا چاہئیں۔
انہوں نے بتایا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی، بھارت کے بڑے ادیب جاوید صدیقی کے خاکوں کی کتاب منظر عام پر لارہا ہے۔
انہوں نے تھیٹر لکھا، ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ ان کی کاوش ہے مگر ان کے خاکے اس سے بھی زیادہ اچھے ہیں، ہندوستان کے صحافی سعید نقوی کی ”مسلمان لاپتہ ہوگئے“ کی تقریب رونمائی کر رہے ہیں۔
معروف شاعر افتخار عارف نے کہا کہ احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اتنی بڑی کانفرنس کرنے جا رہے ہیں، اس کانفرنس میں نہ صرف کراچی بلکہ پوری دنیا سے لوگ شامل ہوتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ قومی ضرورت تھی جس کو آرٹس کونسل آف پاکستان نے پورا کیا، ہم اتنے بڑے ادیبوں سے دور رہے جو ہماری سب بہت بڑی غلطی تھی۔ انہوں نے کہا ایسے میں ملک کی مختلف زبانوں کو ایک چھت تلے جمع کرنا بہت بڑی بات ہے، اس عمارت کو اب دیکھتا ہوں تو بہت خوشی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا احمد شاہ کی ادب کے لیے خدمات قابل تعریف ہیں، اردو کانفرنس میں مختلف موضوعات پر سیشن ہوتے ہیں، اس میں ہر زبان سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرتے ہیں، پہلے دن سے آخری دن تک پورے آرٹس کونسل میں گہما گہمی لگی رہتی ہے، مختلف سیشن میں ہال بھرے ہوتے ہیں، احمد شاہ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے خود کو سیاست سے دور رکھا۔
نور الہدی شاہ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے لاہور، کشمیر اور سکھر میں فیسٹیول کیا اس تجربے سے احمد شاہ اور آرٹس کونسل کے کردار کے معنی بدل گئے، جتنے سیاسی جلسوں میں لوگ نہیں ہوتے اتنے لوگ پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں آئے ہوئے تھے، ادب وہ واحد چیز ہے جس سے آپ میں شعور پیدا ہوتا ہے، اصل میں جو سننا چاہتے ہیں وہ ادبی لوگ ہیں۔
انہوں نے کہا بولنے والے لوگ کھل کر بات کرتے ہیں، ہم بولنے والوں کو کبھی شرائط پیش نہیں کی گئیں کہ ہمیں کیا بولنا ہے اور کیا نہیں، یہ سلسلہ پچھلے 16سال سے جاری ہے اور مستقبل میں یہ سفر نئے راستے کھولتا چلا جائے گا، اس سب کا سہرا احمد شاہ اور ان کی پوری ٹیم کو جاتا ہے۔
سینئر صحافی غازی صلاح الدین نے کہا کہ عالمی اردو کانفرنس کو ہم تمام فیسٹیولز کی ماں کا درجہ دیتے ہیں، عالمی اردو کانفرنس نوجوان کو ادب سے جوڑنے کی کوشش ہے کیونکہ پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کا ادب سے تعلق ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک منفرد چیز ہے کہ ایک ہی چھت تلے سب جمع ہوں اور عام قاری کو ادبی شخصیات سے ملنے کا بھی موقع ملے۔ قدسیہ اکبر نے کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں آرٹس کونسل کا حصہ ہوں، پوری دنیا میں جہاں ادب کے دلدادہ افراد ہیں وہاں اردو کانفرنس کا دائرہ پھیل رہا ہے، ادب ہمیں قومیت کا احساس دلاتا ہے۔
انہوں نے کہا جب ہم ایک جھنڈے تلے جمع ہوتے ہیں تو ایک قوم ہوتے ہیں، اردو زبان سے دیگر علاقائی زبانوں کا رشتہ عالمی اردو کانفرنس کے ذریعے جڑا، اس سفر میں سب ایک ساتھ چلتے ہیں، میڈیا کی وجہ سے ہمارا پیغام پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ سیکریٹری آرٹس کونسل اعجاز فاروقی نے تمام صحافیوں کا شکریہ ادا کیا۔