’دیگر جماعتیں جلسے کریں تو کوئی مسئلہ نہیں، ایک پارٹی درخواست بھی دے تو دفعہ 144 لگ جاتی ہے‘

اب الیکشن ہورہے ہیں سب کو یکساں مواقع دینے چاہئیں‘ ہم چاہتے ہیں الیکشن پُرامن طریقے سے ہوجائے۔ پشاور ہائی کورٹ کے ریمارکس

پشاور ( نیوز ڈیسک ) پشاور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ دیگر جماعتیں جلسے کریں تو کوئی مسئلہ نہیں، ایک پارٹی درخواست بھی دے تو دفعہ 144 لگ جاتی ہے، تمام سیاسی جماعتیں جلسے کررہی ہے لیکن ایک پارٹی پر پابندی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کو کنونشن اجازت نہ ملنے پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی جہاں ایڈووکیٹ جنرل اور درخواست گزار کے وکیل پیش ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ’ڈپٹی کمشنرز، ڈی پی اوز کا اجلاس ہوا ہے، اجلاس میں کنونشن اور جلسوں کے لیے ایس او پیز تیار کیے گئے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو پہلے درخواست دینی ہوگی اور اس کے بعد ایس او پیز کے تحت جلسے یا کنونشن کیے جاسکتے ہیں‘۔
دوران سماعت وکیل درخواست گزار علی زمان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’ہم نے کئی بار درخواست دی لیکن ہمیں اجازت نہیں دی جارہی جب کہ کل ہی پشاور میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بڑا جلسہ کیا‘، اس پر جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ باقی سیاسی جماعتیں جلسے کررہی ہیں لیکن ایک پارٹی پر پابندی ہے، ہماری تشویش یہ ہے کہ باقی سیاسی جماعتیں جلسے کررہی ہیں تو ڈپٹی کمشنرز کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور جب ایک پارٹی درخواست دیتی ہے تو پھر دفعہ 144 لگ جاتی ہے، اب الیکشن ہورہے ہیں سب کو یکساں مواقع دینے چاہئیں‘۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’امن و امان کے سیریس تھریٹس ہیں، کچھ سیاسی پارٹیز اور رہنماؤں کو سیریس تھریٹس ہے‘، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں الیکشن پُرامن طریقے سے ہوجائے لیکن آپ اگر اس طرح ان رپورٹس کے پیچھے لگے رہے تو پھر تو الیکشن نہیں ہوں گے‘۔ اس موقع پر وکیل درخواست گزار شاہ فیصل ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’ہم درخواست دیں گے یہ ہمیں کل جلسے کی اجازت دیں‘، اس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ’حکومت نے اب ایس او پیز بنائے ہیں اس کے مطابق آپ درخواست دیں، سڑک پر کسی کو جلسے کی اجازت نہیں ہے، سڑک پر کسی بھی سیاسی پارٹی کو اجازت دی گئی تو اس ڈپٹی کمشنر کے خلاف کارروائی کریں گے‘۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ’یہ ایس او پیز کے تحت حلف دیں کہ اداروں کے خلاف تقریر نہیں کریں گے‘، جواباً وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ’یہ ہمیں پھر بھی اجازت نہیں دیں گے، پہلے بھی جس وکیل نے کنونشن کے لیے درخواست دی اسے ہراساں کیا جارہا ہے‘۔ عدالت نے کہا کہ ’ایس او پیز آگئے ہیں اور اب یہ ریکارڈ کا حصہ ہے، دفعہ 144 کی مدت ختم ہونے کے بعد آپ درخواست دیں، آپ ایس او پیز کے تحت درخواست دیں اور اداروں پر اتنا تنقید نہ کریں‘، بعدازاں عدالت نے سماعت 29 نومبر تک ملتوی کردی۔