آئی بی کا نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ، آئی بی نظرثانی درخواست کا دفاع نہیں کرنا چاہتی، ہم اپنی نظرثانی درخواست واپس لینے چاہتے ہیں۔سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں موقف
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرِثانی پر سماعت سے قبل اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے سپریم کورٹ سے نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کر لیا۔ انٹیلی جنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر اسد اللہ خان نے متفرق درخواست دائر کر دی۔ آئی بی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا کہ فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس 28 ستمبر کو سماعت کیلئے مقرر ہے، آئی بی نظرثانی درخواست کا دفاع نہیں کرنا چاہتی، ہم اپنی نظرثانی درخواست واپس لینے چاہتے ہیں۔
متفرق درخواست منظور کرکے نظرِثانی درخواست واپس لینے کی اجازت دی جائے۔ 2019 میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نومبر 2017 میں فیض آباد کے مقام پر دیئے گئے دھرنے کے خلاف لئے گئے از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔
بعدازاں عدالت عظمی کے فیصلہ کے خلاف وزارت دفاع سمیت تحریک انصاف، ایم کیو ایم، شیخ رشید کے علاوہ انٹیلیجنس بیورو کی جانب سے نظرثانی کی اپیلیں دائر کی گئی تھیں۔
یہ اپیلیں التوا کا شکار تھیں جن کو سماعت کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 سال سے زیر التواء فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت کے لئے مقرر کر دیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے عدالت عظمی کا3رکنی بینچ تشکیل دیا ہے جو 28 ستمبر 2023 کو کیس کی سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنائے جانے والے بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر 2017 کو فیض آباد دھرنے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے بعد ازاں جاری کیاگیا، فیصلہ 43 صفحات پر مشتمل تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ہر شہری، سیاسی جماعت کو پرامن احتجاج کا حق ہے۔ کوئی شخص جو فتویٰ جاری کرے جس سے کسی دوسرے کو نقصان یا اس کے راستے میں مشکل ہو تو پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور/ یا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت ایسے شخص کے خلاف ضرور مجرمانہ مقدمہ چلایا جائے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ قانون کی جانب سے عائد کی گئی معقول پابندیوں میں رہتے ہوئے شہریوں کا یہ حق ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں بنائیں اور اس کے رکن بنیں۔
فیصلے کے مطابق ہر شہری اور سیاسی جماعت امن و عامہ کے مفاد میں معقول قانونی پابندیوں کے مطابق پر امن اجتماع اور احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ اجتماع اور احتجاج کرنے کی حد اس وقت تک دائرے میں ہے جب تک وہ کسی دوسرے کے بنیادی حقوق، اس کی آزادانہ نقل و حرکت اور املاک کو نقصان نہ پہنچائے۔عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ مظاہرین جو سڑکوں کا استعمال اور عوامی املاک کو نقصان پہنچاتے یا تباہ کرتے ہوئے عوام کے حق میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔