پولیس کے بار بار کے چھاپوں کی وجہ سے بچے کا دل کا مریض والد انتقال کر گیا، پولیس نے زبردستی جلد جنازہ پڑھوا دیا، مرحوم کی بیٹیاں اور بیٹا جنازے میں شرکت ہی نہ کر سکے، صدر لاہور بار ایسوسی ایشن کا الزام
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) صدر لاہور بار ایسوسی ایشن نے الزام عائد کیا ہے کہ لاہور پولیس نے 14 سالہ بچے کو پکڑ کر 9 مئی کے مقدمے میں جیل میں ڈال دیا، پولیس کے بار بار کے چھاپوں کی وجہ سے بچے کا دل کا مریض والد انتقال کر گیا، پولیس نے زبردستی جلد جنازہ پڑھوا دیا، گھر کے کئی مرحوم کی بیٹیاں اور بیٹا جنازے میں شرکت ہی نہ کر سکے۔
تفصیلات کے مطابق نجی چینل پر سینئر صحافی کاشف عباسی سے گفتگو کرتے ہوئے صدر لاہور بار ایسوسی ایشن رانا انتظار حسین کی جانب سے سوشل میڈیا پر 14 سالہ ارسلان نامی بچے کی گرفتاری اور والد کے انتقال کے حوالے سے گردش کرنے والی باتوں سے متعلق اہم انکشافات کیے گئے۔ رانا انتظار حسین نے بتایا کہ ارسلان نامی بچہ ہر وقت گھومتا پھرتا رہتا تھا جس پر اس کی بہنیں اصلاح کیلئے اسے پولیس اسٹیشن لے گئیں، تاکہ پولیس تھوڑی دھمکی دیں تو بچہ ٹھیک ہو جائے، تاہم پولیس نے بچے کو پکڑ کر 9 مئی کے واقعے میں اندر ڈال دیا۔
بعد میں جب بچے کی ضمانت پر رہائی ہوئی تو پولیس نے بچے کو دوبارہ گرفتار کرنے کیلئے بار بار چھاپے مارے۔ بچے کی والدہ نے پولیس کو کہا کہ بچے کا والد دل کا مریض ہے یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکے گا۔ رانا انتظار حسین نے انکشاف کیا کہ بچے کے والد پر تشدد نہیں ہوا، تاہم پولیس کے چھاپوں اور ہراسگی کی وجہ سے ارسلان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ رانا انتظار حسین نے کہا کہ چلیں پولیس کی بات مان لیتے ہیں کہ پولیس نے بچے کے والد پر تشدد نہیں کیا ہو گا، لیکن والد کا جنازہ جلد پڑھانے کیلئے دباو ڈالنے کی کیا وجہ تھی؟ ارسلان نامی بچہ اور اس کی بہنیں والد کے جنازے میں شرکت ہی نہ کر سکی۔
جبکہ لاہور پولیس کے افسران نے رابطہ کر کے کہا ہے کہ اس تمام واقعے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب اس حوالے سے ڈی آئی جی آپریشنز سید علی ناصر رضوی نے کہا ہے کہ لاہور پولیس رول آف لا پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ قانون کی پاسداری یقینی بنارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ”سوشل میڈیا پر ارسلان نسیم نامی شہری کے بارے میں پوسٹ جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ دوران ریڈ پولیس کے تشدد سے ارسلان کے والدجاں بحق ہوئے” محض پروپیگنڈا، من گھڑت اور حقائق کے منافی ہے۔
سید علی ناصر رضوی نے پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ارسلان نسیم تھانہ گلبرگ کے مقدمہ میں گرفتارہوا تھاجو بعد ازاں جوڈیشل کیا گیا۔ملزم 09 اگست کو اے ٹی سی سے ضمانت رہا ہوا تاہم ملزم ایک اور مقدمہ میں تھانہ ریس کورس میں بھی مطلوب تھا جس کی دو مرتبہ طلبی کی گئی مگر ارسلان نسیم طلبی کے باوجودحاضر نہ ہوا۔تعمیل کی غرض سے پولیس پارٹی مورخہ10/11اگست کی رات کو ملزم ارسلان کے گھر گئی مگراس کے گھر پرتالا لگا ہوا تھا لہذاپولیس پارٹی واپس آگئی۔واضع رہے کہ ایک مقدمہ میں ضمانت کسی دوسرے مقدمہ میں قانونی طور پر قابل قبول نہیں ہوتی۔ دوران ریڈ تشدد کا واقعہ پیش نہ آیا ہے اور ملزم کے والدکی طبعی موت واقع ہوئی ہے۔