سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا کیس، فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر دی۔

سویلینزکے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ نے کی، بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

کسی کو پسند آئے یا نہیں، ہم اپنا کام کرتے رہیں گے، چیف جسٹس
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپس میں مشاورت کر لی ہے، فیصل صدیقی صاحب آپ ایک قابل وکیل ہیں، آپ کی عزت کرتے ہیں اس لیے فل کورٹ کی درخواست سنی لیکن عدالت اس طرح سے کیس کے درمیان درخواستیں نہیں سنتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ ستمبر تک دستیاب نہیں ہے، عدالتی چھٹیاں بھی چل رہی ہیں، تمام ججز کی نجی مصروفیات بھی ہیں جو اس کیس کی وجہ سے معطل ہیں، دو مواقعوں پر پہلے دیگر بینچز معطل کر کے فل کورٹ بنائی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا ہم اللہ کو جوابدہ ہیں اس لیے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، کسی کو پسند آئے یا نہیں، ہم اپنا کام کرتے رہیں گے، ہمارا کام ٹھیک ہے یا غلط اس کا فیصلہ وقت اور تاریخ کرے گی۔

ہرسویلین کے پاس کسی بھی عدالت میں جاتے وقت آزادی کا حق ہوتا ہے، جسٹس عائشہ ملک
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایسی عدالت جو آرٹیکل 175 اے کے تحت نہیں اس میں سویلینزکو آزادی کیسے ہوگی؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئین کے تحت توبنیادی انسانی حقوق کی سہولت سویلینزکو حاصل ہے، آئین کے تحت انصاف کا حق سمیت آزاد عدلیہ کی سہولت سویلینزکو حاصل ہے۔

اپیل سے متعلق تین چار پہلوؤں پر غور کی ضرورت ہے، اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ اپیل سے متعلق تین چار پہلوؤں پر غور کی ضرورت ہے، آرمی ایکٹ میں ایک تو غیر ملکی ہیں جو جاسوسی سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہیں، اس کی ایک مثال بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کی ہے، دوسرا یہ کہ آرمی ایکٹ کے نیچے کورٹ مارشل کا معاملہ ہے۔

اٹارنی جنرل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا تیسرا ایسے افراد جو فوج کے خلاف دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث ہیں اور چوتھے درجے میں ایسے لوگ جیسا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہیں، ان تمام امور کو مدنظر رکھ کر غوروخوض کیا جا رہا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ شکریہ آپ کا ادا کرنا چاہیے کہ ان شقوں کا کیس ہمارے سامنے نہیں ہے، اگر آپ کو مثبت جواب مل جائے اور تحفظات دور ہوتے ہیں تو بتائیے گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بصورت دیگر کل اس کی سماعت جاری رکھیں گے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مجھے ابھی اس حوالے سے ہدایات لینی ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سویلینز کیلئے ملٹری کورٹس ایک متوازی جوڈیشل سسٹم نہیں ہوگا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل تک ہدایات کے بعد مکمل روڈ میپ عدالت کے سامنے پیش کروں گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ممکن ہے کوئی مثبت جواب ملے تو اس سے درخواست گزاروں کے تحفظات دور ہو جائیں، بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔