ٹائٹن آبدوز کے مسافروں کے آخری لمحات کی تفصیلات سامنے آگئیں

بیٹری بچانے کیلئے آبدوز کی لائیٹس بند کردی گئیں‘ پانچوں افراد نے آخری وقت مکمل اندھیرے میں موسیقی سنتے ہوئے گزارا۔ پاکستانی مسافر شہزادہ داؤد کی اہلیہ کا انکشاف

لندن ( نیوز ڈیسک ) سمندر کی گہرائیوں میں معروف جہاز ٹائی ٹینک کی سیر کے لیے ٹائٹن آبدوز میں سوار مسافروں کے آخری لمحات کی تفصیلات سامنے آگئیں۔ شہزادہ کی اہلیہ اور سلیمان کی والدہ کرسٹین داؤد نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ سمندر میں تباہ شدہ ٹائٹن آبدوز پر سوار پانچ مسافروں نے اپنے آخری لمحات مکمل اندھیرے میں موسیقی سنتے ہوئے گزارے، مسافروں سے کہا گیا تھا وہ اپنی پسندیدہ موسیقی اپنے فون پر لوڈ کریں اور بلوٹوتھ اسپیکر کے ذریعے چلائیں جب کہ بیٹری بچانے کے لیے ہیڈلائٹس بند کردی گئی تھیں۔


انہوں نے بتایا کہ شہزادہ داؤد 14 جون کو ٹورنٹو کے لیے روانہ ہوئے، مہم میں شامل ہونے کے لیے ان کی سینٹ جانز کی پرواز منسوخ کر دی گئی، اس لیے ان کے پاس شہر کی سیر کے لیے ایک اضافی دن تھا، اگلے دن ان کی پرواز میں تاخیر ہوئی اور انہیں خدشہ تھا کہ شاید وہ اس بار بھی فلائٹ کینسل نہ کردیں، ہم دراصل کافی پریشان تھے کہ اگر وہ اس فلائٹ کو بھی منسوخ کر دیں تو کیا ہوگا؟ لیکن اب ہم سوچتے ہیں کاش وہ ایسا کردیتے۔
کرسٹین داؤد نے بتایا کہ شہزادہ اور سلیمان 15 جون کی درمیانی شب نیو فاؤنڈ لینڈ کے سینٹ جانز کی بندرگاہ پر مدر شپ پر پہنچے اور غوطہ لگانے کے لیے روانہ ہوئے، صبح 7 بجے اور شام 7 بجے بریفنگ ہوتی تھی جس میں ملبے اور مہم کے بارے میں سائنسی گفتگو اور بحث ہوتی، مہم جُو افراد سے کہا گیا وہ موٹے موزے اور ٹوپی پہنیں کیوں کہ گہرائی میں ٹھنڈ ہوسکتی ہے اور غوطہ لگانے سے ایک دن پہلے کم غذا کھانے کی ہدایت کی گئی کیوں کہ آبدوز میں کوئی بیت الخلا نہیں تھا اور پردے کے پیچھے صرف ایک بوتل یا کیمپ طرز کا بیت الخلا تھا۔
شہزادہ داؤد کی اہلیہ نے کہا کہ ان کے شوہر اتنے پرجوش تھے کہ وہ سفر کے دوران بچے کی طرح پرجو تھے، وہ 2012ء میں سنگاپور میں ایک نمائش دیکھنے کے بعد ٹائٹینک کی جانب متوجہ ہو گئے تھے، جو کہ جہاز کے ڈوبنے کی 100 ویں سالگرہ تھی، اسے OceanGate کا اشتہار ملا اصل میں اس کو دیکھ کر میں نے اپنے شوہر کے ساتھ سفر کرنے کا ارادہ کیا، تاہم ہمارا سفر کورونا وبا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گیا اور جب تک وہ اسے بنانے میں کامیاب ہوئے تو میری جگہ سلیمان اس سفر پر جانے کے لیے تیار ہوگیا۔