وفاقی کابینہ سے منظور شدہ ترمیمی مسودے کے اہم نکات سامنے آگئے
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) وفاقی کابینہ سے منظور شدہ ترمیمی مسودے کے اہم نکات سامنے آگئے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ نے 26 نکات پر مشتمل آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے قیام، جوڈیشل کونسل کی تشکیل نو، چیف جسٹس کی تعیناتی کے طریقہ کار اور مدت ملازمت میں تبدیلی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے جب کہ چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات ہونے تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے، آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کے تحت صدر مملکت، کابینہ اور وزیر اعظم کی طرف سے منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹریبیونل میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 111 میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کرنے کے مجاز ہوں گے۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ترمیمی بل کے مسودے میں سپریم کوٹ میں آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز ہے، آئینی بینچ کے لیے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا، آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات ہوں گے، آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہوں گے، عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 184 میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت چیف جسٹس سے سومو نوٹس لینے کا اختیار ختم کیا جائے گا، آرٹیکل 179میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس پیٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کرسکتا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ آئین میں نیا آرٹیکل 191 اے شامل کرنے کی تجویز ہے، مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال ہوگی، تاہم چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے، اگر کسی جج کی 60 سال کی عمر میں بطور چیف جسٹس تعیناتی ہوگئی تو وہ تین سال کے بعد عہدے سے ریٹائر ہوں گے، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، خصوصی کمیٹی 12 اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ہو گی 8 ارکان قومی اسمبلی اور 4 ارکان سینیٹ سے شامل ہوں گے، خصوصی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے سینیئر ترین 3 ججز میں سے ایک جج کا بطور چیف جسٹس تقرر کرے گی، چیف جسٹس تعیناتی کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔
بتایا جارہا ہے کہ آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کوٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل کی تجویز ہے، آئینی بینچ کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا، آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کیے جائیں گے، ترمیم کے بعد آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہو جائیں گے، تمام آئینی مقدمات آئینی بینچ سنے گا، آرٹیکل 209 میں مجوزہ ترمیم کے تحت عدلیہ استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا، مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز ہے، جس کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل 13 ممبران پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے، 4 سینیئر ترین ججز اور ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج کے علاوہ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے سینئر وکیل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
پتہ چلا ہے کہ ججز کی تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں 4 اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، کمیشن میں دو اراکین قومی اسمبلی اور دو سینیٹ سے لیے ہوں گے، دو حکومت اور دو اپوزیشن ارکان کمیٹی کا حصہ بنیں گے، حکومت کی طرف سے ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیراعظم تجویز کریں گے، اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر دیں گے، حکومت نے ججز تقرری آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز دی جس کے تحت جوڈیشل کمیشن جو پہلے صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائی کورٹ اور شریعت کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے سکے گا۔