الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا اہم ستون ہے ‘الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں‘ کمیشن فروری 2024 میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا. جسٹس منصور علی شاہ کا تحریر کردہ70صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے سے متعلق اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے 70 صفحات پر مشتمل یہ تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن رواں برس فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے.
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے‘ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تحریک انصاف سے پہلے درخواست دائر کیوں نہ کرائی گئی اور پہلے ہی ریلیف کیوں دے دیا گیا فیصلے کے مطابق انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے فیصلے کے مطابق یہ عوام کے ووٹ کے حق کے تحفظ کا آئینی فریضہ تھا جو سپریم کورٹ نے ادا کیا ہے.
جسٹس منصور علی شاہ نے تفصیلی فیصلے میں ججوں نے لکھا کہ انہوں نے یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟فیصلے کے مطابق اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا‘ پی ٹی آئی کا یہ دعوی تھا کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے‘ پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے.
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے کمیشن کو جمہوری اصولوں اور انتخابی عمل کی سالمیت کو برقرار رکھنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انتخابات صحیح معنوں میں عوام کی مرضی کی عکاسی کریں اس طرح قوم کے جمہوری تانے بانے کو محفوظ رکھا جائے بدقسمتی سے اس معاملے کے حالات بتاتے ہیں کہ الیکشن کمیشن 2024 کے عام انتخابات میں یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے.
تفصیلی فیصلے میں آٹھ ججوں نے دو ججوں کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا دو ججوں کے تحفظات کے حوالے سے فیصلے میں بتایا گیا کہ جس انداز میں دو ججوں نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں تفصیلی فیصلے کے مطابق جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججوں کے منصب کے منافی ہے. سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دے دیا احکامات کے مطابق اردو ترجمے کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کیا جائے.
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دیتی ہے الیکشن میں سب سے بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟. فیصلے کے مطابق اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیاپی ٹی آئی کا یہ دعوی تھا کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے‘ پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا.
تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے الیکشن کمیشن فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا. فیصلے میں بتایا گیا کہ عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جز ہے آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ بنانے کا اختیار دیتا ہے.
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف دینے پر وضاحت بھی کر دی انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے.