ہم کسی آئینی عدالت کو نہیں مانتے، آئینی عدالت بنانے کیلئے ہماری لاشوں پر سے گزرنا پڑے گا، سپریم کورٹ ہی اصل آئینی عدالت ہے، جس کے ساتھ کھلواڑ ہم نہیں ہونے دیں گے۔ وکلاء رہنماؤں کی پریس کانفرنس
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) وکلاء رہنماؤں نے حکومت کی جانب سے لائی جانے والی مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف 19 ستمبر سے نئی وکلاء تحریک کا اعلان کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینئر وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ پچھلے کچھ دنوں سے جو ڈرامہ ہو رہا ہے یہ تاریخ کا بدترین ڈرامہ ہے ان کے پچھے کوئی اور ہے جو آئین کا جنازہ نکال رہا ہے پاکستان بھر کے وکلاء یہ پیکج پیش ہونے اور پاس ہونے سے پہلے ہی اسے مسترد کرتے ہیں، ہم کسی آئینی عدالت کو نہیں مانتے آئینی عدالت بنانے کیلئے ہماری لاشوں پر سے گزرنا پڑے گا، سپریم کورٹ ہی اصل آئینی عدالت ہے، سپریم کورٹ کے ساتھ کھلواڑ ہم نہیں ہونے دیں گے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے تحفظ کیلئے ہم ملک گیر تحریک کا آغاز کریں گے، ہماری جماعت کالا کوٹ ہے، ہم 2007ء اور 2002ء کی طرز پر وکلاء تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہیں۔
ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ خفیہ طریقے سے یہ آئینی پیکج لانے کی کوشش کی گئی، یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ جمہوری حکومت میں پارلیمنٹ کے ممبران کو یہ معلوم نہیں کہ کیا آئینی پیکج آرہا ہے، جس طریقے سے یہ پیکج لایا جا رہا ہے بذات خود یہ جمہوریت کی نفی ہے، حکومت کے اراکین کو بھی نہیں پتا کہ کیا پیکج آ رہا ہے، ان کو بس حکم آیا ہے کہ یہ منظور کروانا ہے، یہ ایک ایکسٹینشن گروپ ہے، قاضی فائز عیسی عدلیہ میں اس کی سربراہی کررہا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ اس غیر آئینی حکومت کو دوام دیں، پاکستان کے تمام طبقات سےاپیل ہے کہ بنگلہ دیش کی طرح اس مافیا کے خلاف باہر نکل کر اپنا کردار ادا کریں جو سپریم کورٹ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا صدارتی ریفرنس کے دوران دفاع کرنے والے سینئر وکلاء منیر اے ملک اور فیصل صدیقی نے مجوزہ آئینی ترامیم کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 25 اکتوبر کو عہدہ چھوڑنے کا مشورہ دیدیا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر منیر اے ملک اور سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ فیصل صدیقی نے قانونی برادری اور عدلیہ پر زور دیا ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی پر حملہ کرنے والی مجوزہ ترامیم کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے انہیں مسترد کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ آئین کی مقدس دستاویز میں کی جانے والی ترامیم ایسی پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتیں جس کے پاس قومی جواز نہ ہو اور اس لیے ہم قانونی برادری اور عدلیہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف مزاحمت کریں اور ان ترامیم کو مسترد کریں، ایک مشکوک اور قابل اعتراض آئینی ترامیم کے پیکج کے ذریعے آئین اور سپریم کورٹ و ہائی کورٹس پر غیر معمولی مجوزہ حملے کے پیش نظر ہم چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ 25 اکتوبر 2024ء کو اعزاز کے ساتھ اپنے عہدے سے الگ ہوجائیں، جسٹس سید منصور علی شاہ 26 اکتوبر 2024ء سے چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شیخ احسن دین نے کہا کہ وکلاء برداری اور پوری قوم کو اپنی آواز بلند کرنا ہوگی، عدلیہ کے لیے وقت آگیا ہے رول آف لاء کے لیے اپنا آئینی رول ادا کریں، کسی قسم کی کوتاہی پارلیمنٹ عدلیہ کے لیے پاکستان کے لیے بھی زہر قاتل ہو گا، پاکستان کے وکلاء جو تقسیم ہیں وہ اکھٹے ہوجائیں، یہ جہموریت کی نفی ہے شرم کی بات ہے، حکومت اور اس کے اتحادیوں کو بھی پتا نہیں پیکج ہے کیا؟ راتوں رات آپ پارلیمنٹ کھول کر بل منظور کروانا چاہ رہے ہیں، وکلاء بلکل اس پیکج کے خلاف مزاحمت کریں گیے، وکلاء اور سیاسی جماعتیں باہر نکلیں اپنا کردار ادا کریں، مختصرا بات یہ ہے وکلاء ایک نے نئی جدوجہد کا آغاز کردیا ہے۔