آئی پی پیزکو کپیسٹی چارجزکے مد میں کھربوں روپے کی ادائیگیاں اورپاور کمپنیوں کے فرانزک آڈٹ کے لیے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر

آئی پی پیزسے معاہدوں میں آئین اور بنیادی حقوق اورملک میں رائج مسابقتی قوانین کو نظراندازکیا گیا ہے‘ عدالت وفاقی حکومت سے بجلی کی خریداری کے تمام معاہدوں کی تفصیلات طلب کرئے. فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اورصدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائردرخواستوں میں استدعا

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے‘آئی پی پیزکو کپیسٹی چارجزکے مدمیںکھربوں روپے کی ادائیگیاں اورپاور کمپنیوں کے فرانزک آڈٹ کے لیے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائرکردی گئی ہیں ایک درخواست فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے نائب صدر ذکی اعجاز کے ذریعے جبکہ دوسری درخواست لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد اسد منظور بٹ نے دائر کی.
درخواستوں میں وفاقی حکومت کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ آئی پی پیزسے معاہدوں میں آئین اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے علاوہ ملک میں رائج مسابقتی قوانین کو نظراندازکیا گیا ہے.
درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت شہریوں کو کم سے کم قیمت پر بجلی کی فراہمی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے درخواست گزاروں نے وفاقی حکومت سے بجلی کی خریداری کے تمام معاہدوں، عملدرآمد کے معاہدوں اورمتعلقہ معاہدوں کی تفصیلات سپریم کورٹ کے ساتھ شیئر کرنے کی بھی استدعا کی ہے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے ایڈووکیٹ فیصل حسین نقوی کے توسط سے دائر کی گئی درخواست میں عدالت سے 1994، 2002 اور 2015 کی پالیسیوں کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے بغیر مسابقتی بڈنگ اور ریشنیلٹی کے ریاستی وسائل کو ضائع کرنے کی اجازت دی اور اسے جاری رکھا.

عدالت سے کہا گیا کہ وہ یہ حکم دے کہ حکومت اور اس کی مشنری عام لوگوں کو بجلی جیسی بنیادی ضرورت کی فراہمی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ حکومت کو تمام آزاد پاور پروڈیوسرز کا مکمل فرانزک آڈٹ کرنے کا حکم دے اورآئی پی پیز کے ذریعہ کمائے گئے زائد منافع کی وصولی کے ذریعے، تمام معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرکے اور انہیں ٹیک یا پے سے ٹیک اینڈ پے میں تبدیل کرکے 2020 کی رپورٹ پر عمل درآمد کرنا چاہیے.
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت کو ان ہدایات کو واپس لینے کا حکم دینا چاہیے جو ان رقوم کی ڈالروں میں ادائیگی کی اجازت دیتی ہیں کیونکہ ان منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری غیر ملکی کرنسیوں میںمالیاتی اداروں سے ادھار نہیں لی گئی تھیں درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت زندگی کے حق کی ضمانت میں بجلی کا حق بھی شامل ہے ریاست کی جانب سے معقول حد تک سستی بجلی فراہم کرنے میں ناکامی شہریوں کے زندگی کے حق کی آئینی خلاف ورزی کے مترادف ہے.
درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ مسابقتی بڈنگ کے بغیر بجلی کی خریداری آئین کی اس بنیادی خلاف ورزی کو بڑھا دیتی ہے پٹیشن میں کہا گیا کہ گزشتہ 30 سالوں سے بجلی کے شعبے کو پالیسی سازی کو لاپرواہ تجربات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جن میں ملکی اور بین الاقوامی اشرافیہ نے پاکستان کے شہریوں کی قیمت پر ترقی حاصل کی پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ پہلا مجرم ورلڈ بینک ہے جس نے 1994 کی پالیسی سے براہ راست فائدہ اٹھایاستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ ماہرین اور ورلڈ بینک نے تسلیم کیا کہ 1994 کی پالیسی میں خامی تھی لیکن پھر وہی پالیسی 2015 کی پالیسی کی شکل میں برقرار ہے.
درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 21 کھرب روپے ادا کرنے کے تھے جبکہ 2024 میں توانائی کے شعبے کے لیے گردشی قرضہ 54.22 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے اسی وقت میں متعدد آئی پی پیز کو اربوں کی ادائیگی کی جا رہی ہے باوجود اس کے کہ وہ کوئی بجلی پیدا نہیں کر رہے ہیں دریں اثنا، حکومت صارفین کے چھوٹے پول سے زیادہ سے زیادہ ٹیرف وصول کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس کی کوئی عوامی وضاحت نہیں ہے کہ کیوں 2020 کی رپورٹ پر عمل درآمد نہیں ہوا؟.
درخواست میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاور سیکٹر اس طرح ریگولیٹری کیپچر کی ایک مثال ہے جہاں لوگ شکاری اشرافیہ کے ہاتھوں نقصان اٹھاتے رہتے ہیں درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے آئی پی پی کے راستے پر تیس سال گزارے ہیں اور اس راستے میں سوائے مصائب اور آنے والے دیوالیہ کے دکھانے کو کچھ نہیں ہم مزید اس طرح کے پاگل پن کے متحمل نہیں ہو سکتے.
لاہور ہائی کورٹ بار کے صدراسدمنظور بٹ کی جانب سے درخواست ایڈووکیٹ حسن عرفان خان کی جانب سے دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ مہنگی بجلی آئین کے آرٹیکل 18 کے خلاف ہے جو بغیر کسی امتیاز کے حلال کاروبار کے حق کی ضمانت دیتا ہے مہنگی بجلی نے صارفین کو شدید معاشی نقصان پہنچا کر ملک کے لوگوں کے لیے کاروبار کرنا ناممکن بنا دیا ہے انہوں نے دلیل دی کہ ریاست اور اس کے ذمہ داران معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کے پابند ہیں اور جہاں ممکن ہواسے ختم کر دیں پٹیشن میں استدلال کیا گیا ہے کہ ہموار کاروبار کی راہ میں حائل رکاوٹیں نہ صرف فرد یا متاثرہ افراد کو مایوس کرتی ہیں بلکہ قانونی سرگرمیوں کو انجام دینے میں اس طرح کی رکاوٹیں ریاست میں افراتفری، انارکی اور قانون کی عمل داری ختم کرنے کا رجحان رکھتی ہیں.