وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹ کے بعد مہنگائی کے نئے طوفان کی دستک، یکم جولائی سے کئی اشیاء مزید مہنگی ہو جائیں گی
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پٹرول 20 روپے مہنگا ہونے، بجلی کا یونٹ 72 روپے کا ہو جانے کا امکان، وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹ کے بعد مہنگائی کے نئے طوفان کی دستک، یکم جولائی سے کئی اشیاء مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے ٹیکسوں سے بھرپور بجٹ کے بعد ملک میں مہنگائی کا نیا اور خوفناک طوفان آنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت کے بجٹ پر ردعمل دیتے ہوئے عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا ہے کہ عوام مہنگائی سے بے حال ہیں اور نیپرا نے بجلی کمپنیوں کا 50 ارب روپے کا فائدہ کرادیا۔انہوں نے کہا کہ معیشت کی استواری کے لیے معاشرے کو نہ صرف توانائی بہم پہنچانا بلکہ سستی بجلی بہم پہنچانا مقصود ہے۔
اگر وہ عوام کی پہنچ سے باہر ہو جائے تو مہنگائی، بے روزگاری اور ناگہانی آفات کے طوفان کو دعوت مل جاتی ہے۔
پاکستان میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے مگر اب پانی سر سے گزر چکا۔ حالیہ مسئلہ یہ ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں بیس روپے فی لیٹر تک کا اضافہ ہونا طے پایا ہے۔ یہ اضافہ مہلک ضرور ہے کیونکہ بجلی کی فی یونٹ قیمت یکم جولائی یعنی بجٹ پر عمل درآمد کے بعد 27.78 روپے سے بڑھ کر 35.50 روپے ہو جائے گی۔ لیکن جب اس میں بجلی پیدا کرنے والے اداروں کی صلاحیتی ادائیگی یعنی کپیسٹی ٹیکس جڑے گا، جسے حکمران تواتر کے ساتھ شامل کرتے آئے ہیں، تو بات آگے بڑھتی ہے۔
اس پر ٹیکس، سرچارج، توانائی و ٹیرف کی ترمیم و توسیع شامل ہوجائے تو قیمتوں میں مزید بگاڑ آتا ہے، پھر جب بجلی چوری و ترسیلی نقصانات جوڑ لیے جائیں تو وہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکے کے مصداق اثر پذیر ہوتا ہے۔ نتیجتا موجودہ بجٹ کے اطلاق پر ایک عام شہری کو 65 سے 72 روپے تک فی یونٹ پر مبنی بلوں سے نبرد آزما ہونا ہوگا۔ اب وہ 300 یونٹ تک استعمال کرنے والا مراعت یافتہ متوسط طبقہ بھی عوام دوست حکمرانوں کی نظر سے اوجھل ہے۔
ہاں ہمارے برآمد کرنے والے صنعت کاروں کو 10.69 یونٹ کی رعایت ضروردی گئی ہے تاکہ وہ سستے پاکستانی روپے کے طفیل برآمدات میں جو فائدہ اٹھا رہے تھے اس میں مزید سہولتیں حاصل ہوں۔ جبکہ وہ کم سے کم تر قیمتوں پر فروخت دکھا کر زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ دیارِ غیر میں اکٹھا کر سکیں۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ نیپرا نے بجلی کی بنیادی قیمت تقریبا بیس فیصد بڑھاکر بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو اگلے برس کے دوران، لگ بھگ نصف کھرب روپے پلیٹ پر رکھ کر پیش کردیے۔
موجودہ مسائل کا ایک سادہ سا حل یہ تھا کہ ایران سے جو کھلے بندوں تیل اسمگل ہو رہا ہے اسے، دیگر بارڈر ٹریڈ کے ساتھ، قواعد و ضوابط کے تابع کیا جاتا، جس کے نتیجے میں اس قدر ٹیکس و ڈیوٹیاں وصول ہوتیں کہ پیٹرول پر بیس روپے بڑھانے کے بجائے الٹا کم کرنے کی نوبت آ جاتی۔ ساتھ ہی ساتھ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کو بھی لگام دینا بنتی ہے، بشمول ان معاہدات کے، جن کے تحت، ان کمپنیوں کو ادائیگیاں کرنا ہی پڑتی ہیں، خواہ وہ بجلی پیدا کریں یا نہیں۔