وفاقی وزیرخزانہ آج شام بجٹ پیش کیا جائے گا‘دونوں ایوانوں سے سے بل کی منظوری کے بعد اسے صدر مملکت کے سامنے پیش کیاجائے گا
اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) وفاقی حکومت آج بدھ کے روز 18 کھرب روپے سے زائد کا اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے جو مالیاتی سال 25-2024 کے لیے ملکی اخراجات اور آمدن کی عکاسی کرے گا. وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے مالی سال24۔
2023 کے اقتصادی سروے کے اجرا کے موقع پر پریس کانفرنس میں کہا کہ جاری مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت کا حجم 11 فیصد اضافے کے بعد 338 ارب ڈالر سے بڑھ کر 375 ارب ڈالر ہو گیا جبکہ مہنگائی کی شرح 11.8 فیصد ریکارڈ کی گئی‘ خیرات سے فلاحی ادارے تو چل سکتے ہیں ملک نہیں چل سکتا، ملک چلانے کے لیے ٹیکس ضروری ہے‘کوئی مقدس گائے نہیں ہے اور ملکی معاملات کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا.
منگل کے روزاقتصادی سروے پیش کیے جانے کے بعد آج شام کو بجٹ پیش کیا جائے گا جہاں عوام کے ہر طبقے کی نظریں بجٹ پر مرکوز ہوتی ہیں وہیں انہیں حکومت سے ٹیکسز کی مد میں ملنے والے ریلیف یا بوجھ کو لے کر فکر بھی ہوتی ہے سالانہ بجٹ وزارت خزانہ تیار کرتی ہے وزارت کے فائنانس ڈویژن میں بجٹ ونگ بجٹ مرتب کرتا ہے پاکستان میں مالی سال یکم جولائی سے شروع ہو کر اگلے سال 30 جون پر اختتام پذیر ہوتا ہے.
وزارت خزانہ کے مطابق بجٹ کی تیاری کا آغاز وزارت خزانہ صوبائی حکومتوں، ٹریڈ یونینز، کاروباری انجمنوں اور سول سوسائٹی کی مشاورت سے کرتی ہے اکتوبر یا نومبر کے مہینے میں وزارت خزانہ کی طرف سے تمام وزارتوں اور حکومتی محکموں کو بجٹ کال سرکلر جاری کیا جاتا ہے سرکلر کا مقصد وزارتوں اور ڈویژنز سے آئندہ مالی سال کے اخراجات اور آمدنی سے متعلق اندازے یا تجاویز طلب کرنا ہوتا ہے، جو فروری تک موصول ہوتے ہیں اس کے بعد تمام وزارتیں اپنی اپنی بجٹ تجاویز وزارت خزانہ کو بھیجتی ہیں.
وزارت خزانہ ان تجاویز کو جمع کر کے بجٹ مسودہ یعنی ڈرافٹ بنا کر کابینہ کو بھیج دیتی ہے وفاقی کابینہ بجٹ کے مسودے میں تبدیلیاں یا ترامیم کر سکتی ہے کابینہ کی منظوری کے بعد بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے بجٹ کی منظوری میں اپوزیشن کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جو اپنی سفارشات بجٹ میں شامل کروا سکتی ہے عموماحکومت اپنی اتحادی جماعتوں کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن ایوان کے اندر اپوزیشن ہی ہوتی ہے جو حکومتی بجٹ یا تجاویز سے اکثر اتفاق کرتے ہوئے نظر نہیں آتی‘وفاقی بجٹ کی منظوری کے لیے حکومت کو ایوان میں موجود اراکین قومی اسمبلی کی اکثریت درکار ہوتی ہے.
یاد رہے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے بجٹ مسودے کو منی بل بھی کہا جاتا ہے آئین پاکستان کے تحت بجٹ مسودے کی ابتدا صرف قومی اسمبلی سے ہی ہوتی ہے‘قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہونے کے چند گھنٹوں بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اسے پیش کیا جاتا ہے، جو فوری طور پر بجٹ کو خزانہ کمیٹی کے سپرد کر دیتا ہے. سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اپنی تجاویز مقررہ وقت میں تیار کرتی ہے جس کے بعد سینیٹ 14 روز کے اندر بجٹ پر سفارشات کو حتمی شکل دے کر قومی اسمبلی کو بھیجتی ہے تاہم حکومت سینیٹ کی بھیجی گئی تجاویز پر عملدرآمد کرنے کی پابند نہیں ہوتی قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد اسے صدر مملکت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جنہوں نے10 روز کے اندر بجٹ کی منظوری دینا ہوتی ہے صدر سے باضابطہ منظوری کے بعد یہ آئندہ مالی سال کا بجٹ بن جاتا ہے اور یکم جولائی سے نافذ ہو جاتا ہے.