آزاد امیدوارسنی اتحادکونسل میں نہ جاتے تو تحریک انصاف کا کیس اچھا ہوتا اور وہ یہ کہتے کہ مخصوص نشستیں ہمیں دو، مخصوص نشستوں کے کیس میں ریمارکس، سماعت 24 جون تک ملتوی کردی گئی
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ آزاد امیدوارسنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو تحریک انصاف کا کیس اچھا ہوتا اور وہ یہ کہتے کہ مخصوص نشستیں ہمیں دو۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ درخواست پر سماعت کر رہا ہے، وکیل درخواستگزار فیصل صدیقی نے آج دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فریم کرنے کا کہا گیا تھا، جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا؟ اس سلسلے میں سلمان اکرم راجہ نے درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی اور پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لیا بلکہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنا پڑا، سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے بعد مخصوص نشستوں کی لسٹ دی تو الیکشن کمیشن نے درخواست مستردکردی اور کہا سنی اتحاد کونسل نےانتخابات میں حصہ نہیں لیا‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’دو جگہ آپ نے پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی اور تیسری جگہ پولیٹیکل پارٹی لکھا، آخری جگہ پارٹی لکھا کوئی خاص فرق ہے؟‘، فیصل صدیقی نے بتایا کہ ’آرٹیکل 63 اے میں پارلیمنٹری پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی کا بتایا ہے، پولیٹیکل پارٹی پارلیمانی پولیٹیکل پارٹی ہوسکتی ہے‘، چیف جسٹس نے سوال کیا ’آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟‘، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے اور آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ’پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے جنہیں ماننے کے سب اراکین پابند ہوتے ہیں، پارلیمانی پارٹی قانونی طورپرپارٹی سربراہ کی بات ماننےکی پابند نہیں ہوتی‘، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے، پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، امیدوار حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کوپارٹی امیدوار ظاہرکرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوارتصورہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں‘۔
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ ’سنی اتحادکونسل میں شامل ہونے والوں نےخود کو کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کیا، کاغذات بطور تحریک انصاف امیدوار منظور ہوئے اور امیدوار منتخب ہوگئے تو الیکشن کمیشن کے قوانین کیسے تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد قراردے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہویا نہ ہو یہ الگ بحث ہے لیکن امیدوارپارٹی کے ہی تصورہوں گے‘۔
اس پر چیف جسٹس نے نقطہ اٹھایا کہ ’اس حساب سے تو سنی اتحاد کونسل میں تحریک انصاف کے کامیاب امیدوارشامل ہوئے، سیاسی جماعت میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہوسکتے ہیں‘، اس کے جواب میں جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا تنازع کی وجہ بن گیا‘۔
قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ’ کیا تحریک انصاف یا آزاد امیدواروں نے بیٹ کا نشان لینے کی درخواست دی؟ چیلنج کیوں نہیں کیا اگر بیٹ کا نشان نہیں ملا؟‘ اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آزاد امیدوار بیٹ نہیں مانگ سکتے تھے‘، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا‘۔
جسٹس حسن اظہررضوی نے استفسار کیا کہ ’بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو تحریک انصاف لینا چاہتی تھی اس کے ساتھ کیا ہوا تھا؟‘، وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ ’الیکشن کمیشن نے بلے باز والی جماعت کے ساتھ الحاق ختم کردیا تھا، سپریم کورٹ بلے کے نشان والے فیصلے کی وضاحت کردیتی تو سارے مسائل حل ہوجاتے‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں، انٹرا پارٹی انتخابات کرالیتے تو سارے مسائل حل ہوجاتے‘۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اصل اسٹیک ہولڈ رووٹر ہے جو ہمارے سامنے نہیں، پی ٹی آئی مسلسل شکایت کررہی تھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہوسکتا ہے، ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنے کا کہہ رہی تھی اور ایسا پہلی بارنہیں ہوا‘، اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’پارلیمنٹ میں زیادہ آزاد امیدوارہوں اور 2 سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ساری مخصوص نشستیں 2 سیاسی جماعتوں کو جائیں گی یا ان جماعتوں کوصرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کےتناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟ پہلے اس تنازعے کو حل کریں اس کا کیا جواب ہے؟‘۔
قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ’اگر یہ 77 لوگ سنی اتحاد کونسل میں شامل نہ ہوتے تو پھر مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ’دو سیاسی جماعتیں اپنی جیتی نشستوں کے تناسب سے ہی مخصوص نشستیں لیں گی، باقی نشستوں کا کیا ہوگا بعد میں دیکھا جائے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاسی جماعتوں کواضافی نشستیں بھی بانٹ دیں‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’یا توآپ کہیں ایوان کو مکمل نہیں کرنا تو پھر تو بات ہی ختم ہے لیکن اگر 336 کا نمبر پورا ہونا ہے تو پھر نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتے، آزاد امیدوارسنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو تحریک انصاف کا کیس اچھا ہوتا اور وہ یہ کہتے کہ مخصوص نشستیں ہمیں دو‘۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ ’اگرکوئی بھی سیاسی جماعت نشستیں نہ جیتے اور سب آزاد آئیں توکیا ہوگا؟‘، وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ ’ایسی صورت میں مخصوص نشستیں کسی کو نہیں ملیں گی‘، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں کو اپنی جیتی نشستوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی‘۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’سیاسی جماعتوں کو کس تناسب سے نشستیں ملیں گی یہ آئین میں کہاں لکھاہے؟‘، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’حاصل کی گئی قومی نشستوں سے ہی سیاسی جماعت کا مخصوص نشستوں کا تناسب نکلے گا‘، بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی مزید سماعت 24 جون تک ملتوی کردی گئی۔