سائفر کیس میں سزا معطل، عمران خان اور شاہ محمود قریشی بری

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سزا کے خلاف اپیلوں پر مختصر فیصلہ سنا دیا

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں سزا کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، عدالت نے سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کی سزائیں معطل کردیں اور انہیں مقدمے سے بری کردیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کا آغاز کیا تو ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی غیر حاضر تھے، ان کے معاون وکیل نے بتایا کہ ’کچھ وقت دے دیں بیس منٹ تک آجائیں گے‘، عدالت نے کہا کہ ’ہم نے ریگولر ڈویژن بنچ کینسل کیا تاکہ یہ کیس سن سکیں، ہم صرف آپ کے لئے بیٹھے رہے ہیں اور کوئی کام نہیں، ہم نے پہلے کہا تھا 11 بجے ہم نے ٹائم کا بتا دیا تھا، اس کیس کی وجہ سے ریگولر ڈی بی کینسل کی ہے اور سرکاری وکلاء نہیں ہیں، کیا حامد علی شاہ صاحب نے وکالت نامہ واپس لے لیا ہے؟‘، اس پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’حامد علی شاہ سے ابھی بات ہوئی وہ والدہ کے پاس معروف ہسپتال میں ہیں، سلمان صفدر بے شک دلائل کو آغاز کر دیں‘۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ ’اعظم خان نے سائفر عمران خان کو دیا اس سے متعلق کوئی دستاویز نہیں‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس سے متعلق تو آپ کے کلائنٹ کا اپنا اعتراف بھی موجود ہے‘، سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ ’یہ تو پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات ثابت کریں، قانون بڑا واضح اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی ہے‘، اس دوران ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی عدالت پہنچ گئے۔
اس موقع پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے لیے سرکاری طور پر مقرر وکلا صفائی سے عدالت نے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا ’آپ نے اس سے پہلے سزائے موت کا کوئی ٹرائل کیا ہے؟، ان مقدمات کی تفصیل جمع کرا دیں‘، وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیسا چارج ہے کہ سائفر پاس رکھ لیا، گم گیا یا کسی کو دے دیا، اگر سائفر گم گیا تو پھر سائفر پاس رکھنے کا چارج کیسے لگ سکتا ہے؟، سائفر ڈاکومنٹ، سائفر متن ریکارڈ پر نہیں آیا، راجہ رضوان عباسی سپریم کورٹ، ہائیکورٹ، ٹرائل کورٹ کو کہتے رہے کلاسیفائیڈ سیکورٹی بک نہیں دے سکتے لیکن حامد علی شاہ صاحب نے کہا بک دے سکتے ہیں کیوں کہ رولز موجود ہیں‘، ان دلائل کے ساتھ ہی بیرسٹر سلمان صفدر نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بری کرنے کی استدعا کردی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ’گزشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا تھا کیس کو ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیں اس میں خامیاں ہیں، سلمان صفدر صاحب آپ اس پر کیا کہنا چاہتے ہیں وہ بتا دیں‘، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ’آج ہمیں اس کیس میں تین ماہ ہو گئے ہیں ہم بہت آگے نکل گئے ہیں‘۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ’ایف آئی اے پراسکییوٹر ذوالفقار نقوی صاحب کی جانب سے کہا گیا کیس کو میرٹ پر نہیں سنا جا سکتا، ہم آپ سے قانون طور پر معاونت چاہتے ہیں‘، اس موقع پر بیرسٹر سلمان صفدر کی جانب سے سائفر کیس ریمانڈ بیک کرنے کی مخالفت کی گئی، انہوں نے دلائل دیئے کہ ’جو بھی ٹرائل کورٹ میں غلطیاں ہوئی ہیں وہ پراسیکیوشن کی جانب سے کی گئی ہیں، کیس ریمانڈ بیک کرنا آئین کے آرٹیکل 13 اے کی خلاف ورزی ہوگی‘، اس کے ساتھ ہی سلمان صدر نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
اس کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ’30جنوری کو سزا سُنائی گئی اس وقت آپ نے کتنی دیر دلائل دیئے تھے؟‘، ایف آئی اے پرسکیوٹر نے جواب دیا ’تھوڑی دیر دلائل دیئے‘، چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا ’تھوڑی دیر کیا مطلب؟ 4 گھنٹے 15 منٹس؟‘، پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ’میرے خیال سے ایک گھنٹہ دلائل دیئے‘، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ 11بج کر 30 منٹ پر 342 کا بیان ریکارڈ ہوا اور 2 بجے فیصلہ آ گیا، 342 بیان ریکارڈ کرنے کے ایک ڈیڑھ گھنٹے کے اندر 70 صفحات پر مشتمل فیصلہ آ گیا، ہم اپنے فیصلے میں لکھیں گے کہ بہت اچھا ٹرائل ہوا ہے‘۔
اس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’اگر ٹرائل ٹھیک نہیں ہوا تو ریمانڈ بیک کر دیں‘، جس پر عدالت نے جواب دیا کہ ’3 مہینے آپ کو اور سلمان صفدر کو سُنا، اب ہم واپس کیسے بھیج سکتے ہیں، آپ کے پاس کوئی دلائل ہیں؟، 5ون سی کا تقاضا پورا کیا یا نہیں؟ وہ بتائیں، مجھے جو سمجھ آتی ہے آپ نے تقاضا پورا نہیں کیا، پراسیکوشن نے کہاں ثابت کیا ہوا ہے کہ عمران خان سائفر اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے؟‘، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ’سائفر کیس میں کیا جج نے فیصلہ پہلے سے تحریر کر رکھا تھا؟‘، جب کہ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’جس چیز کا ہمیں پتا ہی نہیں ہم نے دیکھا ہی نہیں اس کا ہم کیا کریں، پتا تو چلتا جو افسانہ ہے وہ افسانہ ہے کیا؟، میری ذاتی رائے میں استغاثہ کے پاس سائفر کیس میں کوئی ثبوت نہیں ہے‘، ان ریمارکس کے ساتھ ہی عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور بعد ازاں کیس کا مختصر فیصلہ سنا دیا گیا۔