اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سنا دیا، جس میں عدالت نے سابق وزیراعظم کی ضمانت منظور کرلی اور انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا، جس کے لیے عمران خان کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق 190ملین پاؤنڈز نیب ریفرنس (القادر ٹرسٹ کیس) میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سماعت کی، نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ان سے سوال کیا کہ ’آپ یہ بتا دیں کہ رقم این سی اے نے بھیجی یا ملک ریاض نے؟‘، اس پر امجد پرویز نے کہا کہ ’ملک ریاض کی این سی اے کے ساتھ آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ ہوئی‘، جس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیئے کہ ’آپ کے پاس اس کا کوئی دستاویز نہیں، ساری زبانی باتیں ہیں، آپ سے پہلے پوچھا تھا کہ فریزنگ یا ڈی فریزنگ کا آرڈر آپ کے ہے، آپ نے کہا کہ اُن میں سے کوئی دستاویز آپ کے پاس موجود نہیں ہے، کیا آپ کے پاس آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کے کوئی شواہد موجود ہیں؟ آپ صرف وہ بات کریں جس کے آپ کے پاس شواہد موجود ہیں‘۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مائی لارڈ کا سوال بہت سادہ ہے، مجھے سمجھ نہیں آ رہی آپ جواب کیوں نہیں دے رہے؟ آپ تو اپنے دستاویزات میں اس سوال کا جواب دے بھی چکے ہیں‘، جسٹس طارق جہانگیری نے پوچھا کہ ’وزیراعظم کے سامنے رکھے گئے نوٹ سے پہلے منتقل ہونے والی رقم سے متعلق کیا کہیں گے؟‘، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ ہو جانے کے بعد یہ رقم منتقل کی گئی اور عمران خان کا کردار یہ ہے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ ان کے براہ راست ماتحت تھا‘، جسٹس طارق جہانگیری نے ریمارکس دیئے کہ ’کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ میں تو نہیں لکھا کہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئے گی‘۔
امجد پرویز نے اس کا جواب دیا کہ ’اس عدالت کے توجہ دلانے پر میں نے کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ کو دوبارہ پڑھا ہے، یہ کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ بہت بڑا فراڈ تھی، جب ایسٹ ریکوری یونٹ کی نیشنل کرائم ایجنسی لندن سے خط و کتابت جاری تھی اسی دوران بحریہ ٹاؤن نے زمین خرید کر زلفی بخاری کے نام منتقل کر دی، زمین جب زلفی بخاری کے نام منتقل کی گئی تب القادر ٹرسٹ کا وجود ہی نہیں تھا‘، چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ’ٹرسٹ سے متعلق بتائیں وہ کب رجسٹر ہوا؟‘، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’ٹرسٹ کی کہانی تو بڑی دلچسپ ہے‘، اس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری کے ریمارکس تھے کہ ’کہانی تو ساری ہی دلچسپ ہے کونسی چیز دلچسپ نہیں ہے‘۔
نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان ٹرسٹ کے چیئرمین بنے، بشریٰ بی بی، بابر اعوان اور زلفی بخاری ٹرسٹیز تھے، عمران خان نے بطور چیئرمین رجسٹرار کو خط لکھا کہ بابر اعوان اور زلفی بخاری کو ٹرسٹیز سے نکال دو، بابر اعوان اصل ٹرسٹ کے فاؤنڈر تھے، ٹرسٹ کی 28 شقیں نکال دی گئیں اور بانی پی ٹی آئی تاحیات چیئرمین بن گئے، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں سے متعلق شقیں نکال دی گئیں‘، جسٹس طارق جہانگیری نے امجد پرویز سے مکالمے میں کہا کہ ’آپ کا کہنا ہے کرپشن کے پیسے سے یونیورسٹی بنا دی گئی؟ کیا پاکستان میں ایسی کوئی مثال ہے کہ کرپشن کے پیسے سے کسی نے ہسپتال یا یونیورسٹی بنائی ہو؟‘۔
اس موقع پر امجد پرویز نے استدعا کی کہ ’کیس کا ٹرائل حتمی مرحلے میں ہے، عدالت ضمانت دینے کی بجائے احتساب عدالت کو کیس کا ٹرائل جلد مکمل کرنے کی ڈائریکشن دے‘، اس کے ساتھ ہی نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے دلائل مکمل کر لیے اور عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے جواب الجواب دلائل شروع کیے، انہوں نے کہا کہ ’ملک ریاض فیملی اور این سی اے کے درمیان معاہدہ ہوا، برطانیہ سے رقم این سی اے اور ملک ریاض کے معاہدے کے تحت پاکستان آئی، شہزاد اکبر اگر کلیم کرتے ہیں کہ وہ پیسہ لے کر آئے تو ان سے پوچھیں، شہزاد اکبر کا سارا کچھ عمران خان کے کھاتے میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ وفاقی کابینہ نے صرف معاہدے کو خفیہ رکھنے کی منظوری دی‘۔
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل میں مزید کہا کہ ’نیب کے گواہ نے تسلیم کیا کہ عمران خان کے کہیں کوئی دستخط کسی معاہدے پر موجود نہیں، عمران خان یا بشریٰ بی بی کے اکاؤنٹ میں کوئی رقم نہیں گئی، گواہ نے مانا کہ عمران خان یا بشریٰ بی بی نے کوئی ذاتی فائدہ نہیں لیا، نیب نے کسی موقع پر اس گواہ کے بیان کو اپنے خلاف قرار نہیں دیا، نیب کے اپنے گواہ کے اس بیان کے بعد کیس میں کیا باقی رہ جاتا ہے‘، اس کے بعد عدالت نے عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو اب سنادیا گیا ہے۔