ایجنسیاں اگر کچھ کرتی ہیں تو وزیراعظم اور کابینہ ذمہ دار ہیں، جب تک کسی کیخلاف کارروائی نہیں ہوگی یہ سلسلہ نہیں رکے گا، اندرونی مداخلت ہورہی ہے تو اسے روکنا بھی ہمارا کام ہے۔ دوران سماعت ریمارکس
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیراعظم اور ان کی کابینہ ہے، اس حوالے سے آئین دیکھ لیں، رولز آف بزنس دیکھ لیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سچ سب کو پتہ ہے لیکن بولتا کوئی نہیں، جو بول پڑا اُس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو 6 ججز کیساتھ ہورہا ہے، حکومت بے بس ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت ہورہی ہے جہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جہاں دوران سماعت اپنے ریمارکس میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ججز کہہ رہے ہیں کہ یہ مداخلت مسلسل ہو رہی ہے، اندرونی مداخلت ہورہی ہے تو اسے روکنا بھی ہمارا کام ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے خط میں واضح لکھا ہے کہ ایگزیکیٹو کی مداخلت ہورہی ہے ان ججز کو تحفظ فراہم کرنا اسی ریاست کی زمہ داری ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا پرائیوٹ ڈیٹا منظر عام پر لایا گیا جو جرم ہے، سرکاری اداروں سے بچوں اور بیویوں کا ڈیٹا نکلا یہ اسٹیٹ کررہی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے کیا کیا؟ 2017ء میں سیاسی انجینئرنگ ہورہی تھی، حکومت میں کون تھا؟ کیا حکومت بے بس تھی؟ اور اگر تب بے بس تھی تو کیا آج بھی بے بس ہے؟ ہمارا فیصلہ دینا کافی تو نہیں، شکایت کرنے والے جج خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بلوچستان ہائیکورٹ نے اپنی تجاویز میں مارٹر لوتھر کنگ اور اکبر اللہ آبادی کا شعر لکھ کر کچھ کہا بھی نہیں اور کہہ بھی دیا، شکایت کرنے پر اسلام آبادہائیکورٹ کے ایک جج کیساتھ طوفان بدتمیزی مچاہوا ہے، ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشاں کی گئیں، جسٹس بابر ستار کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے، 76سال سے سب کچھ چلاآرہاہے یہی بات آج اسلام آبادہائیکورٹ بتارہی ہے‘۔