چوہدری پرویزالٰہی کی مور کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کی درخواست مسترد

لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو گدھا گاڑی کا نشان دینے کا فیصلہ برقرار رکھا

لاہور ( نیوز ڈیسک ) پاکستان تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہٰی کی مور کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الہی کی انتخابی نشان مور لینے کی درخواست خارج کردی، اس حوالے سے جسٹس شاہد بلال حسن نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، جس میں عدالت نے الیکشن کمیشن کا پرویز الہی کو گدھا گاڑی کا نشان الاٹ کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی مور کا نشان الاٹ کرنے کی درخواست مسترد کردی۔
بتایا جارہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے عامر سعید ایڈووکیٹ نے دلائل دئیے، چوہدری پرویزالٰہی کی جانب سے مور کے انتخابی نشان کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیے جانے کی پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کے صدر پرویز الہیٰ کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی اور کاغذات مسترد کرنے کا الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ مسترد کر دیا۔
معلوم ہوا ہے کہ سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کی زیر سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی جہاں وکیل پرویز الہیٰ فیصل صدیقی نے کہا کہ ’ہمیں ابھی تک ریٹرننگ افسر کا مکمل آرڈر بھی نہیں ملا، کاغذات نامزدگی پر یہ اعتراض عائد کیا گیا کہ ہر انتخابی حلقے میں انتخابی خرچ کیلئے الگ الگ اکاؤنٹ نہیں کھولے گئے، پرویز الہیٰ پانچ حلقوں سے انتخابات لڑ رہے ہیں‘۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’قانون میں کہاں لکھا ہے کہ پانچ انتخابی حلقوں کیلئے پانچ الگ الگ اکائونٹس کھولے جائیں؟‘ اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ ’اگر انتخابی مہم میں حد سے زائد خرچہ ہو تو الیکشن کے انعقاد کے بعد اکاؤنٹس کو دیکھا جاتا ہے، کاغذات نامزدگی وصول کرنے والے دن پولیس نے گھیراؤ کر رکھا تھا‘، اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ’ان باتوں کو چھوڑیں قانون کی بات کریں‘۔
اپنے دلائل میں فیصل صدیقی نے کہا کہ ’ایک اعتراض یہ عائد کیا گیا کہ میں نے پنجاب میں دس مرلہ پلاٹ کی ملکیت چھپائی، اعتراض کیا گیا 20 نومبر 2023ء کو دس مرلہ پلاٹ خریدا، میرے موکل نے ایسا پلاٹ کبھی خریدا ہی نہیں، اس وقت وہ جیل میں تھے، ہماری دوسری دلیل یہ ہے کہ اثاثے ظاہر کرنے کی آئندہ کٹ آف ڈیٹ 30 جون 2024ءہے‘، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ’ہم نے الیکشن ایکٹ کی اس انداز میں تشریح کرنی ہے تاکہ لوگ اپنے حق سے محروم نہ ہوں‘، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ’جائیدادیں پوچھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معلوم ہو امیدوار کے جیتنے سے قبل کتنے اثاثے تھے اور بعد میں کتنے ہوئے، آپ پلاٹ کی ملکیت سے انکار کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے‘۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’حیرت انگیز طور پر ایک ہی وقت میں پرویز الہی، مونس الہی اور قیصرہ الہی کی ان ڈکلئیرڈ جائیداد نکل آئی، آر او نے ہمیں فیصلہ بھی نہیں دیا کہ کہیں چیلنج نہ کر لیں‘، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے ’آپ تو خوش قسمت ہیں کہ اچانک آپ کی اضافی جائیداد نکل آئی ہے، آپ یہ اضافی جائیداد کسی فلاحی ادارے کو دے دیں‘، فیصل صدیقی نے کہا کہ ’میں تو کہتا ہوں حکومت کو اس جائیداد پر اعتراض ہے تو خود رکھ لے‘، بعدازاں عدالت نے پرویز الہیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن لڑنےکی اجازت دے دی۔