میں غداری کے مضحکہ خیز الزامات پر قید تنہائی میں ہوں، میرا یقین ہے نوازشریف نے سٹیبلشمنٹ سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ اس کی بریت کی حمایت اور انتخابات میں اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈالے گی۔ ’دی اکانومسٹ‘ میں مضمون
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کا الیکشن کمیشن اپنے عجیب و غریب اقدامات سے داغدار ہے، اس نے نہ صرف سپریم کورٹ کی مخالفت کی ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پہلی ترجیح کے امیدواروں کی نامزدگیوں کو بھی مسترد کر دیا، پارٹی کے اندرونی انتخابات میں رکاوٹیں ڈالی ہیں اور محض تنقید کرنے پر میرے اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات چلائے، پاکستان کے آگے بڑھنے کا واحد قابل عمل راستہ منصفانہ آزادانہ انتخابات ہیں۔
عالمی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کے لیے اپنے آرٹیکل میں انہوں نے لکھا کہ آج پاکستان میں وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر نگراں حکومتیں چل رہی ہیں جو آئینی طور پر غیر قانونی ہیں کیوں کہ پارلیمانی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 دنوں کے اندر انتخابات نہیں کرائے گئے، عوام سن رہے ہیں انتخابات 8 فروری کو ہونے والے ہیں لیکن پچھلے ایک سال کے دوران دو صوبوں، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ان سے انکار کیا گیا- سابق وزیراعظم نے لکھتے ہیں کہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں لیکن اپریل 2022ء میں عدم اعتماد کے مضحکہ خیز ووٹ کے بعد جس طرح مجھے اور میری پارٹی کو نشانہ بنایا گیا، اس سے ایک چیز واضح ہو گئی ہے کہ سٹیبلشمنٹ، سیکیورٹی ایجنسیاں اور سول بیوروکریسی پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کو تیار نہیں کیوں کہ یہ سٹیبلشمنٹ ہی تھی جس نے امریکہ کے دباؤ کے تحت ہماری حکومت برطرف کی، امریکہ ہماری ایک آزاد خارجہ پالیسی کی سوچ اور اڈے فراہم کرنے سے انکار پر مشتعل ہوا، حالاں کہ میں واضح تھا کہ ہم سب کے دوست ہیں لیکن جنگوں کے لیے کسی کی پراکسی نہیں ہوں گے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ مارچ 2022ء میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر سے ملاقات کی، ملاقات کے بعد سفیر نے میری حکومت کو ایک سائفر بھیجا، میں نے اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ذریعے پیغام دیکھا اور بعد میں کابینہ میں پڑھ کر سنایا گیا، سائفر میں جو کچھ کہا گیا اس کے پیش نظر میرا خیال ہے امریکی اہلکار کا پیغام یہ تھا کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ختم کی جائے اور چند ہی ہفتوں کے اندر ہماری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، مجھے علم ہوا کہ قمر جاوید باجوہ سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعے ہمارے اتحادیوں اور پارلیمانی بیک بینچرز پر کئی مہینوں سے ہمارے خلاف کارروائی کر رہے تھے۔
عمران خان کا مضمون میں لکھنا ہے کہ حکومت کی اس تبدیلی کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور اگلے چند مہینوں میں پی ٹی آئی نے 37 میں سے 28 ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ملک بھر میں زبردست ریلیاں نکالیں، جس سے یہ واضح پیغام گیا کہ عوام کہاں کھڑی ہے، ان ریلیوں میں خواتین کی کثیر تعداد میں شرکت کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، اس نے ان طاقتوں کو بے چین کر دیا جنہوں نے ہماری حکومت کو ہٹانے کا کام کیا، ان کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہماری جگہ لینے والی انتظامیہ نے معیشت کو تباہ کرکے کر دیا، جس سے 18 ماہ کے اندر غیر معمولی افراط زر اور کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔
قائد پی ٹی آئی نے لکھا کہ ہماری حکومت نے نا صرف پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ کوویڈ 19 سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعریف بھی حاصل کی تھی، اس کے علاوہ اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود ہم معیشت کو 2021ء میں 5.8 فیصد اور 2022ء میں 6.1 فیصد کی حقیقی جی ڈی پی نمو کی طرف لے کر گئے لیکن بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کرلیا کہ مجھے دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس لیے مجھے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے تمام طریقے استعمال کیے گئے، مجھ پر دو قاتلانہ حملے ہوئے، میری پارٹی کے رہنماؤں، کارکنوں اور سوشل میڈیا کارکنوں کو اغوا کیا گیا، قید کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پی ٹی آئی چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔
عمران خان لکھتے ہیں کہ ہماری پارٹی کے بہت سے لوگ جیلوں میں بند ہیں، جب بھی عدالتیں انہیں ضمانت دیتی ہیں یا رہا کرتی ہیں تو ان پر نئے مقدمات بنائے جاتے ہیں، اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت خواتین کو سیاست میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش میں پی ٹی آئی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کو خوفزدہ اور دھمکانے پر لگ گئی، مجھے تقریباً 200 قانونی مقدمات کا سامنا ہے اور کھلی عدالت میں عام ٹرائل سے انکار کر دیا گیا ہے، 9 مئی 2023ء کو ایک جھوٹے آپریشن میں دیگر چیزوں کے علاوہ فوجی تنصیبات پر آتشزدگی کا الزام پی ٹی آئی پر لگایا گیا، جس کے نتیجے میں 48 گھنٹوں کے اندر کئی ہزار گرفتاریاں، اغواء اور مجرمانہ الزامات عائد کیے گئے، یہسب پہلے سے منصوبہ بند تھا۔
انہوں نے لکھا کہ پی ٹی آئی کے علاوہ تمام جماعتوں کو آزادانہ انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے، میں غداری کے مضحکہ خیز الزامات میں قید تنہائی میں ہوں، ہماری پارٹی کے وہ چند رہنما جو انڈر گراؤنڈ نہیں آزاد ہیں، انہیں مقامی ورکرز کنونشن بھی منعقد کرنے کی اجازت نہیں اور جہاں پی ٹی آئی کے کارکن اکٹھے ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں انہیں پولیس کی وحشیانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میرا یقین ہے کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ اس کی بریت کی حمایت اور انتخابات میں اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈالے گی لیکن اب تک عوام پی ٹی آئی کی حمایت اور سلیکٹڈ کو مسترد کررہی ہے۔