ایسے شواہد نہیں کہ عمران خان نے سائفر کو کسی دوسرے ملک کے فائدے کے لیے پبلک کیا

دستیاب مواد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بانی چیئرمین نے سائفر کسی غیر ملک طاقت کو فائدہ دینے کے لیے استعمال کیا، ٹرائل 4 ہفتے میں مکمل کرنے کا حکم کالعدم قرار، سپریم کورٹ نے سائفر کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ کے سائفر کیس کے تحریری فیصلے کے مطابق ایسے شواہد نہیں کہ عمران خان نے سائفر کو کسی دوسرے ملک کے فائدے کے لیے پبلک کیا، دستیاب مواد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بانی چیئرمین نے سائفر کسی غیر ملک طاقت کو فائدہ دینے کے لیے استعمال کیا، ٹرائل 4 ہفتے میں مکمل کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ 4 صفحات پر مشتمل فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔ سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی سائفر کو کسی دوسرے ملک کے فائدے کے لیے پبلک کیا، اسی طرح آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن فائیو تھری بی کے جرم کا ارتکاب ہونے کے شواہد بھی نہیں ملے۔
خفیہ معلومات کو غلط انداز میں پھیلانے کی سزا دو سال ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی جن شقوں کا اطلاق سائفر کیس میں کیا گیا وہ قابل ضمانت ہیں۔ ضمانت منظوری کے ساتھ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو بانی پی ٹی آئی کی ضمانت منسوخ کرنے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی نے ضمانت کا غلط استعمال کیا تو ٹرائل کورٹ ضمانت منسوخ کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل 4 ہفتے میں مکمل کرنے کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کریں گی۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ضمانت نہ دینا دستیاب مواد کے خلاف ہے، ہائی کورٹ نے ضمانت نہ دے کر حقائق کے برخلاف رائے دی۔ ملزمان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جرم کے ارتکاب کی مزید انکوائری کے حوالے سے مناسب شواہد ہیں، مزید تحقیقات کا فیصلہ ٹرائل کورٹ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی کر سکتی ہے۔
یقین کرنے کیلئے ایسی معقول وجہ نہیں ہے کہ عمران خان نے آفیشل سکریٹ ایکٹ کی شق پانچ کی ذیلی شق تین بی کے جرم کا ارتکاب کیا یا نہیں، یہ بات حتمی طور پر ٹرائل کورٹ ہی طے کری گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار معاشرے کے خلاف جرم میں ملوث نہیں، ملزمان کی گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا پورا ٹرائل دستاویزات شواہد پر منحصر ہے ملزمان کی انتخابات کے دوران رہائی کے ذریعے اصلی انتخابات کو یقینی بنائیں گے، کیس میں ایسے حالات نہیں کہ ضمانت مسترد کی جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی خواہش کا اظہار انتخابی عمل سے ہی ممکن ہے، عوام کا حق رائے دہی استعمال کرنا آئینی حق ہے جس کے لیے ہر سیاسی جماعت کے امیدوار کو بلا خوف و خطر یکساں مواقع ملنے چاہئیں، اصل انتخابات وہی ہوتے ہیں جس میں ووٹر آزادانہ حق رائے دہی استعمال کرسکے، سیاسی رائے کی بنیاد پر اصل انتخابات پر سمجھوتہ کرنے پر انتخابات کا درجہ گر جاتا ہے، ہر امیدوار اور سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ بشمول پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنے شہریوں تک پہنچ سکے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ ’جب ہر سیاسی جماعت کو یکساں طور پر مواقع نہ ملیں تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، درخواست گزاران پر ایسے سنگین الزامات نہیں ہیں جس کے معاشرے کو خطرہ ہو، معاشرے کیلئے خطرے کا سبب بننے والے جرائم میں زیادتی، قتل عام اور بچوں کیساتھ بد سلوکی شامل ہیں، حقیقی انتخابات کیلئے درخواست گزاران کو ضمانت ملنا ضروری ہے۔
اضافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے مزید لکھا کہ تقریباً ہر منتخب وزیراعظم عہدے سے ہٹانے کے بعد کو قید کیا گیا، وزراء اعظموں کو نااہل کیا جاتا رہا جبکہ مخالفین کے خلاف مقدمات چلا کر انھیں لیول پلیئنگ فیلڈ سے مرحوم رکھا گیا، 2018کے عام انتخابات میں بھی لیول پلینگ فیلڈ نہیں تھی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک وزیراعظم کو پھانسی دی گئی لوگوں کو جنازہ پڑھنے سے بھی روکا گیا، قوم کی آدھی زندگی فوجی آمروں میں گزری، کوئی ایک فوجی آمر ایک دن بھی جیل میں قید نہ ہو سکا، منتخب وزرا اعظموں کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کیلئے انھیں قید کیا گیا یا جلا وطن کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے۔ جبکہ اس سے قبل سماعت کے دوران بھی جسٹس اطہر من اللہ نے اہم ریمارکس دیے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں، انہوں نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ جو دستاویزات دکھا رہے ہیں اس کے مطابق تو سائفر سے غیر ملکی طاقت کا نقصان ہوا، سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفتر خارجہ میں تھی، سائفر دفتر خارجہ کے پاس ہے تو باہر کیا نکلا ہے؟۔
سماعت کے دوران جسٹس طارق مسعود نے بھی اہم ریمارکس دیتے ہوئے کئی اہم سوالات بھی کیے۔ انہوں نے پوچھا کہ شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا سائفر گم ہوگیا ہے؟ شہباز شریف نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا؟ کیا اصل سائفر پیش ہوا تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ جبکہ جسٹس منصور علی خان نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ریماکس دیے کہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے اور نہ ہی تفتیشی افسر کو تو انکوائری میں کیا سامنے آیا؟ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں، پاک امریکا تعلقات خراب ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ کسی اور کا فائدہ ہوا یہ تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں، اسد مجید کے بیان میں کہیں نہیں لکھا کسی دوسرے ملک کو فائدہ پہنچا، عدالت سائفر پبلک کرنے کو درست قرار نہیں دے رہی لیکن بات قانون کی ہے، ابھی تک کسی گواہ کے بیان ثابت نہیں کہ کسی غیر ملکی طاقت کو فائدہ ہوا۔