سرکاری ادارے معیشت کوسالانہ 500 ارب روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں: شمشاداختر

اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہاہے کہ سرکاری ادارے ملکی معیشت کو سالانہ 500 ارب روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں ۔

نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی ملکیتی اداروں کا پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ہے ، سابق حکومت نے حکومتی ملکیتی اداروں کا ایکٹ پاس کیا تھا، حکومتی ملکیتی اداروں کے نقصانات 500 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں، موجودہ حکومت نے اس حوالے سے پالیسی سٹرکچر اور ڈیزائن تیار کیا ہے، ملکی معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات جاری ہیں۔

شمشاد اختر نے کہا کہ 2020 میں ایس او ایز کے نقصانات 500 بلین روپے تھے، فنانشل نقصانات کے ازالے کے لیے وزارت خزانہ مدد کرے گی، فنانشل نقصانات کے ازالے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی ملکیتی اداروں میں 85 کمرشل ادارے بھی شامل ہیں، ان میں پاور سیکٹر کے 20 ادارے شامل ہیں، حکومتی ادارے خدمات فراہم کرنے میں ناکام رہے، 10 منافع بخش اور نقصان میں چلنے والے اداروں کی فہرست بنالی ہے، حکومت ریاستی ملکیتی اداروں کے نقصانات برداشت کر رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مجوزہ پالیسی کے زریعے آزادانہ بورڈ ممبرز کا تقرر کیا جائے گا، بورڈ ممبران کو اپنے عہدے کی میعاد کی سیکیورٹی دی جائے گی، سی ای او کی تعیناتی بہت اہم ہے، اس پر نظرثانی کی جائے گی، حکومتی ملکیتی اداروں میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی، ان کی تنظیم نو کی جا رہی ہے۔

نگراں وزیرِ خزانہ نے کہا کہ مختلف اوقات میں حکومتی ملکیتی اداروں کی تنظِیم نو کی گئی، حکومتی اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں نااہل افراد تعینات رہے۔

شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ منافع بخش کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، کوئی وزارت سرکاری محکموں کو کسی قسم کی ہدایت جاری نہیں کرے گی، حکومتی کمپنیوں کے لیے پہلی دفعہ کابینہ کی کمیٹی قائم کی گئی ہے، کمیٹی حکومتی کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کام کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ کچھ حکومتی کمپنیوں کی 350 ارب روپے کے منافع ہیں، ان میں سے 185 ارب روپے کے صرف تیل و گیس کمپنیوں کا منافع ہے، سرکاری کمپنیوں کے نقصانات کی بنیادی وجہ میرٹ کے بغیر تعیناتیاں ہیں، وزارتِ خزانہ ان کمپنیوں کو مالی بحران سے نکالتی رہی۔

انہوں نے کہا کہ جو ماضی میں کام اچھا ہوا ہے اسے آگے لے کر چلیں گے، حکومت سٹریٹیجک نوعیت کے اداروں کا انتظام اپنے پاس رکھے گی، دیگر اداروں کی تنظیم نو یا نجکاری کی جائے گی۔