لندن : ( انٹرنیشنل ویب ڈیسک ) روس کے دستبردار ہونے کے بعد یوکرین کو بحیرہ اسود کے راستے محفوظ طریقے سے اناج برآمد کرنے کی اجازت دینے والا معاہدہ باضابطہ طور پر ختم ہو گیا۔ یاد رہے کہ ماسکو نے گزشتہ روز اقوام متحدہ، ترکی اور یوکرین کو مطلع کیا تھا کہ وہ اس معاہدے کی تجدید نہیں کرے گا۔
کریملن کا یہ اعلان کریمیا میں ایک پل پر حملے کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا جس میں دو شہری ہلاک ہو گئے تھے، یوکرین نے باضابطہ طور پر اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن ملکی سکیورٹی سروس کے مطابق اس حملے کے پیچھے اسی کا ہاتھ تھا۔
پیسکوف نے کہا کہ روس کی جانب سے معاہدے کی مدت ختم ہونے کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ، انہوں نے ماسکو میں صحافیوں کو بتایا کہ اس حملے سے پہلے صدر پیوٹن نے اس پوزیشن کا اعلان کیا تھا۔
ماسکو کے اس فیصلے کی عالمی رہنماؤں کی طرف سے مذمت کی گئی ہے جن کا کہنا ہے کہ اس سے کرہ ارض کے کچھ غریب ترین افراد متاثر ہوں گے جبکہ روس نے کہا ہے کہ اگر اس کی شرائط پوری ہوئیں تو وہ معاہدے پر واپس آجائے گا۔
یورپی یونین کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے روس پر مذاقانہ اقدام کا الزام لگایا جبکہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اس اقدام کو ظالمانہ اقدام قرار دیا۔ .
خیال رہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے طویل عرصے سے شکایت کی تھی کہ روسی خوراک اور کھاد کی برآمد کی اجازت دینے والے معاہدے کے کچھ حصوں کا احترام نہیں کیا گیا، خاص طور پر غریب ممالک کو اناج فراہم نہیں کیا گیا جو کہ معاہدے کی شرط تھی۔ روس نے بارہا شکایت کی کہ مغربی پابندیاں اس کی اپنی زرعی برآمدات کو محدود کر رہی ہیں جبکہ صدر پیوٹن نے بار بار معاہدے سے دستبردار ہونے کی دھمکی بھی دی تھی۔ روس کی وزارت خارجہ نے گزشتہ روز ان شکایات کا اعادہ کیا اور مغرب پر کھلی تخریب کاری اور خود غرضی کا الزام بھی لگایا۔
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردگان نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ روسی صدر پیوٹن اس معاہدے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور وہ اگلے ماہ ذاتی طور پر ملاقات کے دوران معاہدے کی تجدید پر بات کریں گے۔
فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بحری جہازوں نے یوکرین کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی کر دی اور 20 ملین ٹن اناج پھنس گیا جبکہ ناکہ بندی کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور یہ بات متعدد مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کو خوراک کی سپلائی کیلئے بھی خطرہ بنی جو یوکرینی اناج پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
بالآخر گزشتہ سال جولائی میں اقوام متحدہ اور ترکی کی مدد سے ایک معاہدہ طے پایا۔ علاوہ ازیں یوکرینی صدر ولا دیمیر زیلنسکی نے روس کے معاہدے سے دستبردار ہونے کے فیصلے کے بارے میں کہا کہ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، ہم سے ان کمپنیوں نے رابطہ کیا ہے جن کے پاس جہاز ہیں اور وہ اناج کی ترسیل جاری رکھنے پر راضی ہیں اگر یوکرین انہیں اندر جانے اور ترکی سے گزرنے پر راضی ہو۔
زیلنسکی کے ایک مشیر میخائیلو پوڈولیاک نے تجویز پیش کی کہ یوکرین سے اناج لے جانے والے بحری جہازوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک بین الاقوامی مسلح پیٹرول فورس بنائی جا سکتی ہے، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ شاید بہت سے ممالک ایسی گشت بنانے کے لیے تیار نہ ہوں۔