یوکرائن جنگ، روس کے لیے بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرائن پر حملوں میں کوئی کمی نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے تو دوسری جانب عالمی سطح پر روس کی سیاسی و اقتصادی تنہائی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یوکرائن پر جاری حملہ کسی بھی یورپی ریاست پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ ہے۔
امریکا اور اتحادی ممالک نے روس کو معاشی طور پر سزا دینے کے لیے صدر پیوٹن سمیت روس کی اہم شخصیات اور تجارتی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
امریکا نے دو جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں ممکنہ اضافے کے پیشِ نظر اپنی فوج یوکرائن بھیجنے سے انکار کیا ہے تاہم امریکا اور دیگر اتحادی ممالک یوکرائن کو عسکری امداد فراہم کرنے کے وعدے پر عمل پیرا ہیں۔
متعدد کمپنیوں کی جانب سے روس میں اپنے دفاتر بند کیے جانے کا امکان ہے جس سے ملک کی معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔
بڑے بینکوں، ایئر لائنز اور گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے روسی جارحیت کو ناقابل قبول قرار دے کر شپمنٹ معطل کرنے کے علاوہ روس سے شراکت داری بھی ختم کر دی ہے۔
امریکا نے روس کے مرکزی بینک اور آمدنی کے دیگر ذرائع پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں جس سے روسی کرنسی روبل کی قدر میں مزید کمی آئی ہے جبکہ روس کے مرکزی بینک سمیت دیگر بڑے بینکوں کو عالمی ترسیلات زر کے نیٹ ورک سوئفٹ کے استعمال سے روک دیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں برطانوی تیل کی کمپنیوں بی پی اور شیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ روسی تیل کی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں میں سے اپنے شیئرز نکال رہے ہیں۔
روس ثقافتی اور کھیلوں کی سطح پر بھی عالمی تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
ہالی وڈ کے دو بڑے فلم ساز اداروں ڈزنی اور وارنر برادرز نے بھی کہا ہے کہ وہ روس میں اپنی آئندہ آنے والی فلموں کی ریلیز روک رہے ہیں۔
روسی حکومت سے منسلک میڈیا اداروں کے لیے معلومات کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے مقصد سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر کے علاوہ مائیکروسافٹ نے بھی اقدامات کیے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں