جو بات پاکستانی لڑکیوں میں ہے وہ کسی اور ملک کی لڑکیوں میں کہاں؟

چین میں ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد بھاگ نکلنے میں کامیاب ہونے والی لڑکی کی آپ بیتی

لاہور (نیوز ڈیسک) : پاکستانی خواتین کی چینی مردوں کے ساتھ شادیاں کروا کر انہیں چین لے جانے اور ان کے ساتھ مبینہ طور پر ہونے والے تشدد، جسم فروشی اور انسانی اعضا نکالنے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ ایسے میں چین میں اپنے خاوند کے چنگل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہونے والی ایک لڑکی نے اپنی آپ بیتی سنا دی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دئے گئے ایک انٹرویو میں حمیرا خان (فرضی نام) نے بتایا کہ میرا آبائی تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور مذہب عیسائیت ہے۔
ملازمت کے سلسلے میں میرے والد اسلام آباد میں مقیم ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ رہتی ہوں۔ ہماری زندگیوں میں چرچ کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور میرا خاندان ہر اتوار کو چرچ لازمی جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مقامی چرچ سے منسلک شخصیت نے والد صاحب کو چین کا رشتہ بتایا اور یہ بھی بتایا کہ لڑکا مسیحی ہے اور سی پیک میں ملازمت کرتا تھا تو میں نے بھی ہاں کر دی۔

میری شادی گذشتہ سال جولائی میں ہوئی تھی اور میں ستمبر میں چین پہنچ گئی۔ شادی کے بعد ہم صرف 15 دن تک پاکستان میں رہے تھے۔ چین میں مجھے ٹیکٹسر نامی گاؤں میں لے جایا گیا تھا۔ اس جگہ کے بارے میں یہ تو کہا جا رہا تھا کہ گھر ہے مگر مجھے وہ کبھی بھی گھر نہیں لگا۔ کیونکہ وہ کوئی کلب کی طرح کی چیز ہو سکتی ہے لیکن وہ گھر نہیں تھا۔ اس بارے میں بات کرنے پر میرے خاوند نے پہلی مرتبہ مجھ پر ہاتھ اُٹھایا اور کہا کہ تمہارے گھر والوں، شادی کروانے والوں، سب کو پیسے دے کر لایا ہوں۔
تمہیں وہی کرنا ہو گا جو میں کہوں گا۔ پاکستان میں میرا خاوند شراب نہیں پیتا تھا، مگر چین پہنچتے ہی اس نے سب سے پہلا کام شراب نوشی کا کیا اور مجھ پر بلا وجہ تشدد بھی کیا تھا۔ جب میں نے اس کو یسوع مسیح کا واسطہ دیا تو وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ کون سا مذہب اور کس کا مذہب؟ یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ گاہک لاتا، میں انکار کرتی تو مجھے مار پڑتی تھی۔
ایک روز تو اس نے مجھے اُلٹا لٹکا کر مجھے برہنہ کیا اور تصاویر اور ویڈیو بناتا رہا۔ ایک روز جب میں نے کہا کہ میں تمہاری بیوی ہوں تم مجھے شادی کرکے لائے ہو تو وہ ہنستا اور کہنے لگا کہ اس سے پہلے وہ فلپائن، بھارت سے بھی ایسی شادیاں کر چکا ہے اور یہ کہ پاکستان میں پہلی شادی ہے مگر جلد ہی دوسری بھی کرے گا کیونکہ پاکستانی لڑکیاں بہت خوبصورت ہیں اور ان کی بہت مانگ ہے۔
جو بات پاکستان کی لڑکیوں میں ہے وہ کسی اور ملک کی لڑکیوں میں کہاں۔ جب میرا انکار بہت زیادہ ہو گیا تو ایک روز ایک ڈاکٹر آیا اور اس نے میرے جسم کا ناپ وغیرہ لیا۔ جس کے بعد مجھے شک ہوا کہ شاید یہ میرے جسمانی اعضا فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ میں کئی روز سو بھی نہیں سکی ۔ اس ساری صورتحال کا تجزیہ کیا اور پھر اپنے خاوند سے کہا کہ میں جسم فروشی کے لیے تیار ہوں مگر کچھ وقت چاہئیے۔
میرا بدلا ہوا رویہ دیکھ کر اس نے مجھ پر اعتماد کرنا شروع کردیا۔ اس دوران ایک روز مجھے تہنائی میں موبائل استعمال کرنے کا موقع مل گیا۔ حالانکہ اس سے پہلے گھر والوں سے وہ اپنے موجودگی میں بات کرواتا تھا۔ میں نے اپنے والد صاحب کو ساری صورتحال بتا دی تھی۔ انھوں نے فوراً بیجنگ میں سفارت خانے سے رابطے کیے۔ مجھے اُمید تھی کہ والد صاحب کچھ نہ کچھ کریں گے مگر دو، تین دن تک کچھ نہ ہوا۔ میں اُمید اور نا اُمیدی کے درمیان میں تھی کہ اچانک پاکستانی سفارت خانے کے اہلکار چین کی پولیس کے ہمراہ وہاں پر پہنچ گئے۔ انہوں نے مجھے فی الفور پاکستان پہنچا دیا اور اب میں پاکستان میں ان کے خلاف مقدمہ درج کروا چکی ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں