بائیڈن نے آپ کو اب تک فون کیوں نہیں کیا، ترک اینکر نے بھی وزیراعظم عمران خان سے پوچھ لیا

ریاست کے سربراہان کی بات چیت رسمی ہوتی ہےکیونکہ اصل کام تو ان کے نیچے کام کرنے والے لوگ کرتے ہیں اس لیے ضروری نہیں کہ بائیڈن مجھے فون کریں،بائیڈن دباؤ میں ہیں مجھے ان سے ہمدردی ہے،امریکا سے بات چیت جاری ہے۔وزیراعظم کا جواب

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کو امریکی صدر کا فون نہ کرنا ابھی ایک موضوع ہے۔حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے ترک ٹی وی کو انٹرویو دیا۔جس میں اینکر نے سوال کیا کہ آپ اس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تشریح کیسے کریں گے۔جس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میرے خیال میں ہم امریکا سے بات چیت کر رہے ہیں۔
ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ سے امریکی ہم منصوبوں سے رابطے میں ہیں۔ہمارے وزیر خارجہ ان کے وزیر خارجہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔جس پر اینکر نے سوال کیا کہ لیکن امریکی صدر نے اب تک آپ کو کال نہیں کی۔انہوں نے نہیں کی، لیکن ایسا ہوتا بھی نہیں ہے،آپ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے۔صدر اور ریاست کے سربراہان کی بات چیت رسمی ہوتی ہے۔

کیونکہ اصل کام تو ان کے نیچے کام کرنے والے لوگ کرتے ہیں اس لیے ضروری نہیں۔

اینکر نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا دنیا کے سب سے طاقتور شخص کے لیے ضروری نہیں کہ وہ وزیراعظم پاکستان کو کال کرے جو اس لمحے افغنستان کے تناظر میں اہم ترین شخصیت میں سے ایک ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ میں بات دہراتا ہوں۔میرا خیال ہے صدر بائیڈن اس وقت بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔مجھے ان سے ہمدردی اس لیے ہے کہ ائیرپورٹ پر پریشان کن صورتحال کی وجہ سے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،یہ ان پر منحصر ہے وہ کب بات کرتے ہیں، تُرک ٹی وی کو دئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اگر وہ ہتھیارڈال دیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت افغان طالبان کے تعاون سے افغانستان میں ہو رہی ہے۔مذاکرات ہونے کے باوجود سکیورٹی فورسز پر ٹی ٹی پی کے حملوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم بات چیت کر رہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کوئی نتیجہ نہ نکل سکے، مگر ہم بات کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کے اس معاملے میں مدد کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بات چیت افغانستان میں جاری ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ مدد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد انہیں معاف کردیں گے جس کے بعد وہ عام شہریوں کی طرح رہ سکیں گے۔ افغانستان کی صورتحال سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس مرتبہ ہم خوفزہ تھے کہ کابل پر قبضی کرتے وقت خونریزی ہو گی۔ لیکن اس حد تک تو غیر متوقع طور پر اختیارات کا انتقال بہت پُر امن ہوا۔ تاہم اب مسئلہ سر پر لٹکتا یہ انسانی بحران ہے۔
کیونکہ افغان حکومت کا اپنے بجٹ کے لیے 70 سے 75 فیصد انحصار بیرونی امداد پر تھاجیسے ہی بیرونی امداد والا جزو نکل جاتا ہے جس کا لوگوں کو خدشہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد بیرونی امداد ختم ہو جائے گی ، طویل مدت کے لیے تو شاید طالبان اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے لیکن اگر فوری طور پر انہیں امداد فراہم نہیں کی جاتی تو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہاں حکومت گر جائے گی اور افراتفری پھیلے گی جس کے نتیجے میں انسانی بحران جنم لے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں فوجی حل میں یقین نہیں رکھتا، میں عراق، افغانستان اور حتٰی کہ اپنے ملک میں طاقت کے استعمال کا مخالف رہا۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی جانوں کی قربانیاں دیں مگر تسلیم نہیں کیا گیا۔ سیاست دان ہونے کے طور پر سیاسی مذاکرات کو ہی آگے کا راستہ سمجھتا ہوں جیسا میں نے افغانستان کے بارے میں بھی کہا تھا۔ ہمیں مسئلے کا حل نکالنا ہو گا ، اور افغانستان کی عوام کے بارے میں سوچنا ہو گا۔
اس بات کا بہت زیادہ انحصار اس بات پر ہے کہ بین الاقوامی برادری طالبان کی حکومت تسلیم کرتی ہے یا نہیں۔ مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ افغانستان نے کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق ہمسایہ ممالک سے بات چیت جاری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ کب طالبان کو تسلیم کرے گا ؟ افغانستان میں نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان اورافغانستان کی تاریخ کا قریبی تعلق ہے۔
ہم امن کے لیے بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔ہم افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کی مشاورت سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ ان سے مشورہ کریں گے کہ طالبان کی حکومت کب تسلیم کی جائے ؟ کیونکہ پاکستان اگر تنہا طالبان کو تسلیم کر بھی لے تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ ترجیحاً تو یہ ہونا چاہئیے کہ امریکہ ، یورپ ، چین اور روس بھی ان کی حکومت کو تسلیم کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں