پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت بحرانی صورتحال کا شکار، ٹیکسٹائل فیکٹریاں بند ہو جانے سے ماہ فروری میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں کروڑوں ڈالرز کی کمی ہو جانے کا انکشاف
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) ملکی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس کئی ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئیں، پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت بحرانی صورتحال کا شکار، ٹیکسٹائل فیکٹریاں بند ہو جانے سے ماہ فروری میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں کروڑوں ڈالرز کی کمی ہو جانے کا انکشاف۔ تفصیلات کے مطابق جولائی 2024 کے بعد فروری 2025 میں ٹیکسٹائل برآمدات کم ترین سطح پرآگئیں، فروری میں ماہانہ بنیادوں پر ٹیکسٹائل برآمدات میں 26 کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی، گزشتہ ماہ ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم ایک ارب 42 کروڑ ڈالر رہا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی ٹیکسٹائل کی برآمدات کو فروری میں بڑا دھچکا لگا ہے۔ ذرائع کے مطابق فروری میں ماہانہ بنیاد پر ٹیکسٹائل برآمدات میں 26 کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے، فروری 2025 میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم ایک ارب 42 کروڑ ڈالر رہا جو جنوری میں ایک ارب 68 کروڑ ڈالر تھا۔
ذرائع کے مطابق دسمبر 2024 میں ٹیکسٹائل برآمدات ایک ارب 48 کروڑ ڈالر تھیں جبکہ نومبر 2024 میں ٹیکسٹائل برآمدات ایک ارب 46 کروڑ ڈالر تھیں۔
اکتوبر 2024 میں ٹیکسٹائل برآمدات ایک ارب 63 کروڑ ڈالر جبکہ ستمبر 2024 میں ایک ارب 61 کروڑ ڈالر تھیں، اسی طرح اگست اور جولائی 2024 میں ٹیکسٹائل برآمدات بالترتیب ایک ارب 64 کروڑ ڈالر اور ایک ارب 27 کروڑ ڈالر تھیں۔ دوسری جانب انگریزی اخبار ایکسریس ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے ملک کی ٹیکسٹائل صنعت میں بحرانی صورتحال پیدا ہو جانے کا انکشاف کیا گیا ہے۔
ملک میں مہنگی بجلی و کاروباری مشکلات کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری کے 33 فیصد یونٹ بند ہونے کا انکشاف سامنے آگیا۔ بتایا گیا ہے کہ مہنگی بجلی اور کاروباری مشکلات کی وجہ سے ملک میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے 33 فیصد یونٹ بند ہو چکے ہیں، یعنی پاکستان کی 568 ٹیکسٹائل ملز میں سے 187 اب بند ہوچکی ہیں، ان میں سب سے زیادہ ملز پنجاب میں بند ہوئیں صوبے میں 147 ٹیکسٹائل ملز بندش کا شکار ہوئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں 54 ملز بند ہوئی ہیں تو خیبرپختونخواہ میں 6 ملز بند ہو چکی ہیں، شہروں کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو قصور میں سب سے زیادہ 47 اور ملتان میں 33 فیکٹریاں بند ہوئی ہیں، فیصل آباد میں 31، شیخوپورہ میں 11 اور ساہیوال میں 17 ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں، ان ملز کی بندش کی وجہ مہنگی بجلی کے علاوہ ملک کی سخت معاشی صورتحال بھی بتائی گئی ہے۔
دوسری جانب نجی ٹی وی چینل آج نیوز کی رپورٹ کے مطابق آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کامران ارشد نے خبردار کیا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے، 40 فیصد اسپننگ ملز بند ہو چکی ہیں جبکہ باقی بھی بند ہونے کے قریب ہیں۔ اپٹما نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی ٹیکسٹائل صنعت کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں اور اسپننگ انڈسٹری کو بچانے کے لیے فوری پالیسی اصلاحات کی جائیں۔
کامران ارشد کا کہنا ہے کہ دھاگے کی بے تحاشا درآمدات کے باعث مقامی صنعت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مزید 100 سے زائد اسپننگ ملز بند ہو جائیں گی، جس سے لاکھوں ملازمتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ چئیرمین اپٹما کے مطابق غیر منصفانہ ٹیکس نظام اور حکومتی پالیسیوں نے ٹیکسٹائل صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس سے 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کامران ارشد نے کہا کہ پاکستان کی کاٹن اکانومی کو بچانے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں اور ٹیکسٹائل سیکٹر کو سہارا دینے کے لیے سیلز ٹیکس اصلاحات کی جائیں، ورنہ یہ صنعت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔