اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات کے دوران وزارت خزانہ کی جانب سے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو حالیہ برسوں میں درپیش چیلنجز کے باوجود حکومت نے مہنگائی کی شرح کو نمایاں طور پر کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ان چیلنجز میں یوکرین اور روس کی جنگ، 2022 کے تباہ کن سیلاب، عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور بیرونی مالیاتی سختیاں شامل تھیں جس کے نتیجے میں 2023 میں مہنگائی 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی تاہم، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی بروقت پالیسی اقدامات اور مالیاتی حکمت عملیوں کے نتیجے میں 2024 میں افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
ایس بی پی نے درمیانی مدت میں افراط زر کو 5-7 فیصد کے ہدف تک لانے کے لیے جامع پالیسیاں اختیار کیں، جن کے تحت پالیسی ریٹ میں ایڈجسٹمنٹ کی گئی اور ریگولیٹری اقدامات متعارف کرائے گئے۔
اس کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے، اور یہ جون 2024 تک 17.5 فیصد تک آ گئی ہے۔اپنے ضمنی سوال میں ڈاکٹر شازیہ صوبیہ اسلم نے استفسار کیا کہ مہنگائی میں کمی کے باوجود عوام کو اس کے مثبت اثرات کیوں محسوس نہیں ہو رہے۔
وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک نے جواب دیا کہ گزشتہ سال 38 فیصد تک پہنچنے والی مہنگائی اب 7 فیصد پر آچکی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مہنگائی کم ہونے کا مطلب قیمتوں میں کمی نہیں بلکہ ان کے بڑھنے کی رفتار میں کمی ہے، جو عوام کے لیے ایک مثبت علامت ہے۔بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے ایک سوال پر وزیر مملکت نے بتایا کہ حکومت اس مسئلے پر بھی پوری توجہ دے رہی ہے۔وزیر اعظم نے اس حوالے سے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو بجلی کی قیمتوں میں کمی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کر رہی ہے۔