قومی اسمبلی،18ہزار 877 ارب روپے کا آئندہ مالی سال کا بجٹ کثرت رائے سے منظور

اسلام آباد (این این آئی) قومی اسمبلی نے 18ہزار 877 ارب روپے کا آئندہ مالی سال کا بجٹ کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کر دیںجبکہ بجٹ کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی جانب سے واک آئوٹ کیا گیا ، حکومتی ارکان نے ڈیسک بجاکر وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کو مبارکباد دی۔۔ جمعہ کو قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال کیلئے 18ہزار 877 ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور کرلیا ۔وزیر خزانہ نے 2 ہفتے قبل ٹیکس بھرا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جبکہ اپوزیشن جماعتوں خصوصا پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اس پر شدید تنقید کی گئی تھی تاہم وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کر دہ فنانس بل کی وزیراعظم شہباز شریف نے توثیق کی ۔

حزب اختلاف کی جماعتوں، خاص طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کے حمایت یافتہ اراکین پارلیمنٹ نے بجٹ کو مسترد کر دیا اور اسے شدید مہنگائی کا باعث قرار دیا۔قبل ازیں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے ایوان کو بتایا کہ ہمیں حقیقت پر بات کرنی چاہیے کہ کرنٹ اکانٹ خسارہ کیسا ہے، کرنسی اسٹیبل ہے اور یہ ایسے ہی رہے گی، سرمایہ کار واپس آرہے ہیں، پچھلے مہینے غذائی مہنگائی 2 فیصد پر تھی۔انہوں نے کہا کہ معیشت میں استحکام آیا ہے، ہم اس میں مزید بہتری لا رہے ہیں، گروتھ کی طرف جا رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ساڑھے نو فیصد نہیں رہ سکتی، ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے، جو ریلیف کی بات کرتے ہیں، اس کو ہم نے ساڑھے 13 فیصد پر لے جانا ہے، اس سلسلے میں لیکج ، کرپشن اور چوری کو روکنا ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کرنی ہیں، اس کی ڈیجیٹلائزیشن کرنی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ نان فائلرز کی والی اختراع ہے، میرے اوپر چھوڑا جائے تو یہ اختراع ملک میں فی الفور بند ہو جانی چاہیے، اس کے لیے ہم نے ایک بہت اہم قدم اٹھایا ہے، آئندہ سال کے لیے ہم نے نان فائلرز کے لیے ریٹس کو بہت بڑھادیا ہے تا کہ وہ تین چار بار سوچے کہ اس کو اس ملک میں ٹیکس ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے ترقیاتی بجٹ ایوان میں پیش کردیا گیا، کمزور طبقات کے لیے جو بات ہوئی، اس میں کم از کم تنخواہ، یوٹیلٹی اسٹورز کی بات ہوئی ہے، ہم اس کو آگے لے کر جا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اسی طرح سے نجکاری کی بات کی جا رہی ہے، یہ دو سے تین سال کا منصوبہ ہے جس پر عمل در آمد کیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی، ریاستی اداروں میں اصلاحات، انرجی، پاور سیکٹر کی اصلاحات بھی مجموعی طور پر اس بجٹ کا حصہ ہیں اور یہ ہمارے مستقبل کے روڈ میپ کا حصہ ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس کے دور ان پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں کمی کیلئے پیپلزپارٹی نے ترامیم واپس لے لیں جبکہ اپوزیشن کی ترامیم ایوان نے مسترد کر دیں جس پر اپوزیشن نے رائے شماری کرانے کا مطالبہ کیا۔اس دوران 170 ارکان اسمبلی نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں کمی کے خلاف ووٹ دیدیا جبکہ 84 ارکان نے لیوی میں کمی کی حمایت کی۔ اس طرح، پیٹرولیم لیوی میں کمی کی اپوزیشن کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں تاہم وزیر خزانہ نے خود ہی پیٹرولیم لیوی میں کمی کا اعلان کر دیا۔اجلاس کے دور ان پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے خیبر پختونخوا کو کم منصوبے دینے اور فنڈز روکنے کا معاملہ اٹھایا جس پر وزیراعظم شہباز شریف نے خود وضاحت کر دی۔اجلاس کے دور ان قومی اسمبلی نے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی، پیپلزپارٹی نے اراکین پارلیمنٹ کی مراعات بڑھانے سے متعلق ترمیم ایوان میں پیش کی، ارکان پارلیمنٹ تنخواہ و مرات ایکٹ میں ترمیم فنانس بل کے ذریعے کی جا رہی ہے ۔پیپلز پارٹی کے عبد القادر پٹیل کی جانب سے پیش کردہ ترمیم کی منظوری کے بعد اراکین اسمبلی کا سفری الائونس 10روپے کلومیٹر سے بڑھا کر25روپے کر دیا گیا۔

ترمیم کے متن کے مطابق اراکین پارلیمنٹ کے بچ جانے والے سالانہ فضائی ٹکٹس استعمال نہ ہونے پر منسوخ کرنے کی بجائے اگلے سال قابل استعمال ہوں گے، اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کا اختیار وفاقی حکومت سے لیکر متعلقہ ایوان کی فنانس کمیٹی کے سپرد کردیا گیا جبکہ اپوزیشن نے تنخواہوں اور مراعات سے متعلق پیپلز پارٹی کی ترمیم کی مخالفت کی۔حکومت نے فنانس ترمیمی بل 2024 میں بین الاقوامی ایئرٹکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 100فیصد سے زیادہ اضافہ کردیا ۔حکومت نے بین الاقوامی سفر پر اکانومی کلاس میں ایف ای ڈی فی ٹکٹ ساڑھے 12ہزار روپے کردی، مڈل ایسٹ، افریقہ کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کی ایف ای ڈی فی ٹکٹ ایک لاکھ 5 ہزار روپے، یورپ کے لیے بزنس کلاس، فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 2 لاکھ 10 ہزار روپے کردی۔اس کے علاوہ امریکا کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 3لاکھ 50ہزار روپیکردی گئی ہے، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 2لاکھ 10ہزار روپے کردی گئی۔قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ 2010 میں آخری این ایف سی ہوا تھا اور چاروں صوبوں نے مل کر اس وقت کے وزیر اعظم اور صدر کے ساتھ مل کر این ایف سی کی منظوری دی، اس وقت دہشتگردی اپنے عروج پر تھی اور اس سے سب سے زیادہ متاثر دوسرے صوبے تھے لیکن خیبرپختونخوا کے فورسز اس وقت فرنٹ لائن پر تھے۔

انہوںنے کہاکہ میں خود اس میں شریک تھا اور یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں سب کام ہوا یہ آج تک چلا آرہا ہے اور ہمیں اس پر آج تک اعتراض نہیں۔انہوں نے بتایا کہ 2010 سے آج تک 590 ارب روپے خیبرپختونخوا کو ملے دہشتگردی کے حوالے سے، اس صوبے میں بھی ہمارے بھائی اور بہنوں نے شہادتیں دی ہیں مگر اس زمرے میں کسی کو پیسے نہیں ملے سوائے خیبرپختونخوا کے، میں ادب سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ 590 ارب روپے دیے گئے لیکن آج تک وہاں سی ٹی ڈی قائم نہ ہوسکا جس کی وجہ سے یہ رقم مختص کی گئی تھی ایوارڈ میں، اس کو سوچیں کہ 590 ارب جاچکے مگر سی ٹی ڈی آج بھی نامکمل ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ پنجاب میں چیف سیکریٹری کے حوالے سے جو اپوزیشن نے کہا تو ہم نے ان کو تین ناموں کا پینل دیا ہے خیبرپختونخوا میں لیکن ابھی تک انہوں نے فیصلہ نہیں دیا، ان کو نہیں پسند تو ہم اور کوئی پینل دے دیتے ہیں، خیبرپختونخوا کی عوام پاکستان کے بہادر عوام ہیں، یہ ایک خوبصورت صوبہ ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ ملک میں قانون نہیں ہے، انٹیلی جنس ایجنسیاں ججز کو زدکوب کررہی ہیں۔انہوںنے کہاکہ یہ بجٹ در حقیقت اقتصادی دہشت گردی ہے، اس بجٹ سے عوام کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، حکومتی بینچز میں بیٹھنے والے لوگ عوام کے معاشی قاتل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ درآمد کی گئی گندم حکومت کے فرنٹ مین نے رکھی ہوئی ہے، یہ سرکس کابینہ ہے، گندم اسکینڈل پر نیب کی تحقیقات ہونی چاہیے، آئل، آٹا، اشیا خورد و نوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اس بجٹ کے ساتھ کوئی اقتصادی ترقی نہیں ہوگی۔قبل ازیں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کو اس بات پر ٹارگٹ کیا جارہا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔انہوںنے کہاکہ فنانس بل میں کوئی کفایت شعاری پلان نہیں رکھا گیا، اس حکومت میں سب سے زیادہ لوگ بیروزگاری رہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی آئی اے اور ڈسکوز کی نجکاری کی بات کی جارہی ہے، انکم ٹیکس آرڈیننس میں بھی یہ لوگ ترامیم کرنا چاہ رہے ہیں۔بعد ازاں رہنما پی ٹی آئی زرتاج گل نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بنایا ہے، اس بجٹ میں عام آدمی کے لیے کچھ نہیں رکھا گیا۔انہوں نے بتایا کہ میں اس بجٹ کو مسترد کرتی ہوں۔