سلیمانی نے عراق میں امریکی افواج کی واپسی کی ذہانت سے حمایت کی جس نے امریکہ کو داعش کو شکست دینے کا تھکا دینے والا اور بھاری کام کرنے پر آمادہ کیا. امریکی سنٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ کے اپنی کتاب میں انکشافات
واشنگٹن ( انٹرنیشنل ڈیسک ) پاسدران ایران کی القدس فورس کے کمانڈرجنرل قاسم سلیمانی کی جنوری2020میں موت کے بعد امریکی سنٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے بغداد میں امریکی فورسز کے اس آپریشن کے رازوں سے پردہ ہٹاتے ہوئے بتایا کہ جنرل سلیمانی کی بڑھتی ہوتی طاقت اور اثرورسوخ کی وجہ سے اسے راستے سے ہٹانا ضروری ہوگیا تھا.
اپنی کتاب”دی میلٹنگ پوائنٹ“ میں امریکی فوج کی سنٹرل کمانڈکے سابق سربراہ نے کہا ہے کہ سلیمانی نے عراق میں امریکی افواج کی واپسی کی ذہانت سے حمایت کی جس نے امریکہ کو داعش کو شکست دینے کا تھکا دینے والا اور بھاری کام کرنے پر آمادہ کیا پھراس نے امریکی اور اتحادی افواج کے ارکان کو مارنے اور نشانہ بنانے کا کام کیا تاکہ انہیں عراق سے نکال دیا جائے.
جنرل میک کینزی نے بتایا کہ سلیمانی کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگیا یہاں تک کہ وہ یہ ماننے لگا کہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا انہوں نے لکھا ہے کہ دمشق سے بغداد کی طرف روانہ ہونے سے 36 گھنٹے قبل امریکی انٹیلی جنس کو معلوم تھا کہ جنرل سلیمانی کون سا طیارہ لے جائے گا میرا خیال تھا کہ جیسے جیسے سلیمانی کی شہرت بڑھتی گئی اس کی”انا“ میں بھی اضافہ ہوتا گیا امریکی جریدے”اٹلانٹک“ کے مطابق امریکی کمانڈر جس نے اس حملے کی نگرانی کی تھی نے کہا کہ قاسم سلیمانی ایک آمر بن گیا تھا اس لیے اسے ختم کرنا ضروری تھا.
جنوری 2020 میں بغداد کے ہوائی اڈے پر امریکی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کے چار سال بعد امریکی سینٹرل کمانڈ کے سابق سربرہ جنرل فرینک میکنزی نے اپنی کتاب میں اپنی زیرنگرانی امریکی فوج کے اس آپریشن کی تفصیلات بیان کی ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب مارچ 2019 میں انہوں نے کمان سنبھالی مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا سلیمانی کو نشانہ بنانے کا کوئی منصوبہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس پر ایران کے ممکنہ ردعمل کے بارے میں کیا سوچا ہے؟.
انہوں نے انکشاف کیا کہ چند برسوں میں شہرت حاصل کرنے والے ایرانی فوجی کمانڈر کی حرکات کا امریکیوں کو ہر بار عراق کے دورے پر پہلے سے علم ہوتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ بغداد کے ہوائی اڈے پر اترتے تھے ان کو ٹارگٹ کیئے جانے کے روز بھی امریکی انٹیلی جنس کو 36 گھنٹے قبل معلوم تھا کہ جنرل سلیمانی کس طیار ے میں جائیں گے. انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی ایک آمربن گیا تھا اور اس نے بہت سے معاملات میں ایرانی انٹیلی جنس، فوج، یا پاسداران انقلاب سے مشورہ کیے بغیر پورے خطے میں کام کیا جنرل میک کینزی نے کہا کہ سلیمانی نے عراق میں امریکی افواج کی واپسی کی ذہانت سے حمایت کی جس نے امریکہ کو داعش کو شکست دینے کا تھکا دینے والا اور بھاری کام کرنے پر آمادہ کیا پھراس نے امریکی اور اتحادی افواج کے ارکان کو مارنے اور نشانہ بنانے کا کام کیا تاکہ انہیں عراق سے نکال دیا جائے.
جنرل میک کینزی نے بتایا کہ سلیمانی کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگیا یہاں تک کہ وہ یہ ماننے لگا کہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا جب ان سے امریکی تعاقب کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے 2019 میں کہا تھا کہ وہ مجھے کیا ماریں گے؟. سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کے طور پر میک کینزی نے کہا کہ سلیمانی کے قتل نے ایرانی قیادت کو مجبور کیا کہ وہ امریکی افواج کے خلاف اپنے مہینوں سے جاری کشیدگی کا دوبارہ حساب کریں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سلیمانی کے آپریشن نے ایک سخت سبق دیا کہ تہران امریکی طاقت کا احترام کرتا ہے اور ڈیٹرنس کا جواب دیتا ہے.
انہوں نے کہا کہ جب امریکی طاقت کم ہوتی ہے تو ایران آگے بڑھتا ہے سلیمانی کو امریکہ اور ایران کے تعلقات کی جدید تاریخ میں ایک مرکزی شخصیت سمجھا جاتا ہے وہ 30 سال کے دوران پاسداران انقلاب کا ایک اہم چہرہ بن گئے جسے ایرانی مسلح افواج کی ایک آزاد شاخ سمجھا جاتا ہے. جنرل میک کینزی نے لکھا ہے کہ قاسم سلیمانی نے 1979 میں صدام حسین کے ایران پر حملے سے ایک سال قبل پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی اس کے بعد ہونے والی جنگ میں سلیمانی نے ایک طاقتور کمانڈر کے طور پر شہرت حاصل کی وہ اسی کی دہائی میں ہی ڈویژن کمانڈر کے عہدے تک پہنچ گئے 1997اور 1998 کے درمیان سلیمانی قدس فورس کے کمانڈر بن گئے.
قدس فورس پاسداران انقلاب کے اندر ایک ایلیٹ گروپ ہے جس کی غیر روایتی کارروائیاں ایرانی سرحدوں سے باہر مرکوز ہیں سلیمانی قدس فورس کی ترقی میں ایک ناگزیر کمانڈر تھے کیونکہ انہوں نے خطے میں اپنے ملک کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے عربی زبان میں اپنی روانی کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا. وہ ایرانی سپریم لیڈر آیت علی خامنہ ای سے بھی براہ راست رابطے میں تھے اور یہاں تک کہ ان کے لیے بیٹے کی طرح بن گئے اس کے بعد انہیں 2011 میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی 2014 تک وہ ایران میں ہیرو بن چکے تھے.
امریکی فوج کے سابق سربراہ نے لکھا کہ پہلے جنرل سلیمانی کو 31دسمبر کو نشانہ بنانے کا فیصلہ ہوا جس کی تیاریاں مکمل کی جاچکی تھیں انہیں بغداد کے ہوائی اڈاے پر ہی مسلح ڈرونز کے ذریعے میزائل سے نشانہ بنایا جانا تھا جس کے بعد یمن میں ایران کے حمایت یافتہ گروپوں پر فوری حملہ ہمارے پلان کا حصہ تھا مگر اسی دوران بغداد میں امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے واشنگٹن ”بن غازی“کو دوبارہ دہرانا نہیں چاہتا تھا.
انہوں نے لکھا کہ بغداد میں سفارت خانے کے باہر ہونے والے مظاہروں کی منظرعام پر آنے والی ویڈیوزاور تصاویر پریشان کن تھیں ایسی صورتحال میں جنرل سلیمانی کا مارا جانے پر مظاہرین کی جانب سے امریکی سفارت خانے اور عملے کے اراکین پر شدید قسم کا حملہ یقینی تھا‘دوسرا واشنگٹن عراق کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھالہذا ہمیں اپنا پلان منسوخ کرنا پڑا حالات کی تبدیلی سے ہماری ترجیح سفارت خانے اور عملے کی حفاظت بن گئی تھی لہذا ہم نے وہاں گن شپ ہیلی کاپٹر اور اضافی دستے تعینات کردیئے.
انہوں نے لکھا کہ صدر اوبامہ کے سٹاف کی ایک سنیئررکن انٹیلی جنس بریفر سے اکثر پوچھتی تھی کہ کیا آپ کو سلیمانی کی ایسی تصویر نہیں مل سکی جہاں وہ ہالی وڈ اداکارجارج کلونی جیسا نظر نہ آتا ہو؟میک کینزی نے لکھتے ہیں کہ جب میں نے پہلی بار جنرل کی حیثیت سے” سینٹ کام“ میں شمولیت اختیار کی تو میں نے صدر اوباما انتظامیہ اور ان سے پہلے صدر بش کی انتظامیہ کو جنرل سلیمانی کی جنگی چالوں کے سامنے ناکام ہوتے دیکھا میں نے اسرائیلیوں کو اس کے خلاف ناکام ہوتے دیکھا مارچ 2019 میں جب میں نے سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر کا عہدہ سنبھالا تو میں نے سب سے پہلے جو کام کیا کہ وائٹ ہاﺅس سے پوچھا کہ کیا صدر ہمیں سلیمانی کے خلاف آپریشن کی منظوری دیں گے؟ وائٹ ہاﺅس کاجواب غیر تسلی بخش تھا.
انہوں نے لکھا ہے کہ عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر مسلسل حملے ہورہے تھے ہمیں جوابی کاروائی کی اجازت صرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اجازت وزیردفاع مارک ایسپر کے ذریعے مل سکتا تھی لیکن ہم جانتے تھے کہ وہ چاہیں گے کہ ہم انہیں اپنا منصوبہ پیش کریں یمن میں ہمارا ایک ہدف تھا جو کچھ عرصے سے قدس فورس کی کمانڈ پر مامور تھا اس نے امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف متعدد بڑی کاروائیاں کی تھیں‘ہمارے دیگر ممکنہ اہداف میں جنوبی بحیرہ احمر میں ایرانی پاسدارن انقلاب کے لیے انٹیلی جنس اکٹھانا کرنے والا جہاز‘اس کے علاوہ جنوبی ایران میں فضائی دفاع اور تیل کی ریفائنریزشامل تھیں تمام آپشنز پر اچھی طرح سے بحث کے بعد میں نے اپنے عملے سے کہا کہ ہم صرف عراق اور شام کے اندر اہداف کی تجویز کریں گے جہاں ہم پہلے سے ہی فوجی آپریشن کر رہے ہیں کیونکہ میں تنازع کو وسیع کرنے سے بچنا چاہتا تھا.
انہوں نے کہا کہ ہمارے ممکنہ اہداف میں چار ”لاجسٹک “اہداف اور تین شخصیات شامل تھیں جن میں دو کتائب حزب اللہ کے سہولت کار تھے اور تیسرا سلیمانی تھا اگلے روز میں نے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین مارک ملی کے ذریعے وزیردفاع مارک ایسپر کو اپنی سفارشات بھیج دیں دوپہر تک ہمیں کچھ ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کی منظوری مل گئی لیکن اس میں صرف لاجسٹک اہداف کو نشانہ بنانے کی اجازت دی گئی تھی جنرل سلیمانی یا اس کے ساتھیوں کو نہیں.
جنرل میک کینزی کے مطابق صدر ٹرمپ سلیمانی میں بہت دلچسپی رکھتے تھے ہفتے کی شام میں نے اپنی بریفنگ کی دستاویزات کو حتمی شکل دی جس میں بتایا گیا تھا کہ اگر ہم نے ان پر حملہ کرنے کا انتخاب کیا تو کیا ہو سکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک درست فیصلہ تھا جس سے ایرانی مزید مشکلات کا شکار ہوسکتے تھے اور یہ واشنگٹن کی جانب سے ایک سخت جواب بھی ہوتا لیکن مجھے معلوم تھا کہ ”اوول آفس“ایران کے ردعمل کے بارے میں کافی پریشان تھا اس کے باوجود میں نے اپنی سفارشات بجھوادیں تاہم ان میں قاسم سلیمانی پر حملے کی سفارش شامل نہیں تھی .
واضح رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کو جنوری 2020 میں بغداد کے ہوائی اڈے پر ایک امریکی حملے میں قتل کر دیا گیا تھا اس حملے کے نتیجے میں امریکہ اور ایران کشیدگی میں اضافہ ہوا تہران نے انتقام کی دھمکی دی لیکن اس وقت اس کا ردعمل کچھ میزائلوں کو امریکی اڈے کی طرف داغنے تک محدود رہا جس میں کچھ امریکی فوجیوں کو معمولی چوٹیں آئی تھی.