سارے مسائل گندم کی امپورٹ کے باعث پیدا ہوئے ،فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی گئی ،رپورٹ پبلک کرینگے’ پنجاب حکومت

لاہور ( این این آئی) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے ایوان کو آگاہ کیا ہے کہ سارے مسائل گندم کی امپورٹ کے باعث پیدا ہوئے ہیں،اس امپورٹ پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی گئی ہے،کمیٹی کی رپورٹ کو پبلک کریں گے،ہم گندم کی امپورٹ کی مذمت کرتے ہیں،یہ امپورٹ نہیں ہونی چاہیے تھی،وفاقی حکومت نے گندم کی خریداری میں اضافہ کرنے کی بات کی ہے ،چھوٹے کسان کی گندم میںاگر نمی پائی بھی جاتی ہو تو اسے بھی خریدیں گے ،ایوان میں بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن نے مال روڈ پر کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے علامتی دھرنا بھی دیا۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت کی بجائے 3 گھنٹے 26منٹ کی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔اجلاس کے آغاز میں اسپیکر نے اجلاس کو گندم پالیسی تک محدود کرنے کیلئے رولز معطل کر دئیے ،رولز معطل کرنے کی قرارداد صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے پیش کی۔اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے میاں اعجاز شفیع کے نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میاں اسلم اقبال نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا ،اگر وہ حلف اٹھا لیتے ہیں تو میرے پاس ان کے پروڈیکشن آرڈر جاری کرنے کا اختیار موجود ہے۔ میں اپنے اختیارات اسی صورت استعمال کرسکتا ہوں جب رکن اٹھا چکا ہو۔ قبل ازیں نکتہ اعتراض پر میاں اعجاز شفیع نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میاں اسلم اقبال ہمارے پارلیمانی لیڈر ہیں ،انہیں ایوان میں لانے کیلئے اسپیکر نے کئی مرتبہ وعدہ کیا ،معلوم نہیں کیا مجبوری ہے کہ سپیکر اپنی کمٹمنٹ پوری نہیں کر رہے۔

قائد حزب اختلافف ملک احمد بھچر نے کہا کہ میاں اسلم اقبال ایوان میں حلف اٹھانے والے آخری ممبر رہ چکے ہیں،اگر اسپیکر اس معاملے میں دلچسپی لیں تو میاں اسلم اقبال کا حلف ویڈیو لنک پر لیا جا سکتا ہے۔رکن اسمبلی ذوالفقار بھٹی نے کہا کہ چیئر نے گزشتہ روز یقین دہانی کروائی تھی کہ اپوزیشن کے ارکان پر مقدمات درج نہیں ہوں گے،حکومتی وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس ہمارے ارکان کے خلاف مقدمات درج کررہی ہے۔پنجاب اسمبلی کے ایوان میں گندم پالیسی پر بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے کہا کہ اس وقت وفاقی سیکرٹری خوراک اور چاروں صوبائی سیکرٹریزخوراک اہم میٹنگ کر رہے ہیں، آج جو مسئلہبنا ہے وہ گندم کی امپورٹ کے باعث ہوا ہے ،اس امپورٹ پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی گئی ہے،کمیٹی کی رپورٹ کو پبلک کریں گے۔

میری قائد حزب اختلاف سے ملاقات ہوئی ہے، اس معاملے پر ان کی بھی تجاویز لیں گے ۔پنجاب میں گندم دو کروڑ 23لاکھ ایکڑ پر کاشت کی جاتی ہے،محکمہ خوراک 2 ملین میٹرک ٹن کی خریداری کرتا ہے ،ایک ملین میڑک ٹن خریداری پر 100 ارب روپے کا قرض لینا پڑتا ہے ،دو سیزن اگر گندم کو ذخیرہ کیا جائے تو اس پر 80 ارب روپے کے اخراجات آتے ہیں،اس وقت گندم خریداری کی پالیسی پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن حالات یہ ہیں کہ کسان اور کاشتکار کے ساتھ شہروں میں بھی حکومت کو برا بھلا کہا جارہا ہے۔ ہم گندم کی امپورٹ کی مذمت کرتے ہیں،یہ امپورٹ نہیں ہونی چاہیے تھی۔انہوں نے ایوان کو بتایا کہ پچھلی دفعہ4 ملین ٹن گندم کی خریداری ہوئی تھی اور اس سٹاک کا آدھا خرچ ہوا ہے،حکومت یقین دلا تی ہے کہ چھوٹے کسان کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے گندم کی خریداری میں اضافہ کرنے کی بات کی ہے ،اس وقت وہاں صرف باردانہ تقسیم ہوا ہے ،پنجاب میں باردانہ کی تقسیم شروع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجا ب حکومت کسان کارڈ متعارف کروانے جارہی ہے،چھوٹے کسان کی گندم میںاگر نمی پائی بھی جاتی ہو تو اسے بھی خریدیں گے ۔پالیسی بیان آنے کے بعد اپوزیشن نے اس پر بات کرنے کی اجازت چاہی تاہم اسپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے یہ کہتے ہوئے ملتوی کردیا کہ گزشتہ چار روز سے اس مسئلے پر تفصیلی بحث ہو چکی ہے۔

اسپیکر کی طرف سے بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر قائد حزب اختلاف کی زیر سربراہی اپوزیشن ارکان نے مال روڈ پر احتجاج کیا، اپوزیشن اراکین نے کہا کہ حکومت کے پاس کسان کو دینے کیلئے کچھ نہیں ، ایوان میں بتائی گئی پالیسی کے خدو خال انتہائی مبہم ہیں۔اپوزیشن ارکان نے کچھ دیر تک مال روڈ پر علامتی دھرنا بھی دیا جس کے بعد اپوزیشن کے ممبران پرامن طور پر منتشر ہو گئے۔